اسلام آباد (جیوڈیسک) بڈھ بیر کیمپ پر دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان نے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کے خلاف از خود کاروائی پرغور شروع کردیا ہے۔
بڈھ بیر کیمپ حملے اور اس سے قبل آرمی پبلک اسکول پشاور پر ہونے والے ہولناک دہشت گرد حملے میں تحریک طالبان پاکستان کا ہی ایک ذیلی گروپ “تحریک طالبان پاکستان درہ آدم خیل ” ملوث ہے اور اس کے لیڈر عمر خلیفہ یا عمر نرے کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ اپنے کئی ساتھیوں سمیت افغانستان کے سرحدی علاقے میں روپوش ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق اگرچہ عمر خلیفہ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مولوی فضل اللہ کے نائبین میں شامل ہے مگر اپنی ہولناک دہشت گرد کارروائیوں کی وجہ سے اس وقت وہ پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے لیے نمبر ایک دشمن کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی حکام ایک بار پھر افغانستان کے سرحدی علاقوں میں روپوش تحریک طالبان پاکستان کے رہنماوں کے بارے میں مکمل ثبوت اور شواہد افغان حکومت کے حوالے کریں گے اور افغان حکام سے ان کے خلاف فوری اور سخت کاروائی کا مطالبہ کیا جائے گا۔ تاہم اگر اس حوالے سے افغانستان کی جانب سے تساہل برتا گیا تو پاکستانی سیکیورٹی فورسز خود بھی ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کر سکتی ہیں۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کی خواہش ہے کہ افغانستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اس کے ساتھ تعاون کرے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان کے بعض سرحدی علاقوں میں افغان سیکیورٹی فورسز کا کنٹرول نہیں اور وہاں مختلف شدت پسند گروہوں کی عملداری ہے جس کا فائدہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اٹھارہی ہے اور اس نے ان علاقوں میں اپنے ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں۔ افغان حکام کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف تعاون بڑھانے اور ان کے ساتھ شواہد “شیئر” کرنے کے لیئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف عنقریب کابل کا دورہ بھی کر سکتے ہیں۔