تحریر : محمد وقار قارئین آج عید الاضحی ہے، قربانی کو یادِ ابراہیمی سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن یہ ایک باقاعدہ اسوہ حسنہ سے وابستگی کا اظہار ہے قُربِ الٰہی پانے کا زریعہ ہے اور سب سے بڑھ کر ایک شاندار عبادت ہے عبدیت کی تازگی کا محرک ہے۔یہ وہ یاد ہے جب جنابِ خلیل اللہ نے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جب شیرخوار اسمعیل کو آب و گیاوادی میں چھوڑنے کا حکم ملا تو بجا لائے اور جب تین روز تک مسلسل خواب دیکھتے رہے کہ اسمعیل کو خدا کی راہ میں قربان کرنا ہے تو اس وقت اپنے اکلوتے بیٹے سے سارا ماجرا بیان کیا حضرتِ اسمعیل نے کہا ابا جان آپ خدا کا حکم مانیے خدا نے چاہا تو مجھے صابرین میں سے پائیں گے۔خدا نے تو اپنے جلیل القدر پیغمبر کو پرکھا درحقیقت خدا تعالیٰ کے معبوث کردہ نبی اور پیغمبر ہر قسم کے متاع سے بے نیازہوتے ہیں اوررب کے صادر شدہ ہر احکام پر استقامت سے چلتے ہیں۔
منیٰ کے مقام پر پہنچے اور چھری پھیرتے وقت حضرت ابراھیم نے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی جب چھری چلا دی اور آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ ایک مینڈھے پر چھری چل گئی ہے چھری فرزندِ ابراہیم کی گردن تک پہنچی ہی تھی کہ جبرائیل نے اسمعیل کی جگہ وہ جنت سے لایا گیا دنبہ رکھ دیا۔
آواز آئی کے اے ابرہیم تم نے خواب سچا کردکھایا ہم نیکوں کو یوں ہی جزا دیتے ہیں،بے شک یہ صاف آزمائش ہے ہم نے اس کا فدیہ ذبح عظیم کے ساتھ کردیا اور اس کو بعد والوں کے لیے باقی رکھا۔تاقیامت اللہ رب العزت نے ابراہیم علیہ السلام کی اس یاد کو زندہ و جاوید کردیا ہر سال” عید البقر” کو حلال جانوروں کی قربانی معقدہ کردی۔حضور اکرم ۖ کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے تو اسے عید گاہ کے نزدیک بھی نہیں جانا چاہیے۔
مویشیوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ جاری و ساری ہے بیوپاریوں اور خریدار کے درمیان اٹھکیلیاں اور بحث مباحثہ کے سیشن چلتے ہیں بیوپار کو مان ہوتا ہے کہ اس نے جانور اتنی جِدوجہد کر کے پالا ہے لہٰذا اس کو منہ مانگا معاوضہ لے گا لیکن اسحاق ڈار کے ہاتھوں آئے روز پستے عوام سستے میں جانور لے کر اپنے معصوم بچوں کی خواہش کو جلداز جلد پورا کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔اکژ اوقات تو جیب بلکل اجازت نہیں دیتی اس کے پیش نظر ونڈو شاپنگ بھی کی جاتی ہے کے بچوں کا مویشی دیکھ کر تھوڑا دل بہل جائے۔قربانی کے لیے خوبصورت جانور کا انتخاب ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے لیکن ہائی ریٹ عام آدمی کی آرزو کا گلا گھونٹ دیتے ہیں مگر وسعت رکھنے والے خوب سے خوب دنبہ، بکرا، اونٹ،گائے تلاش کر کے اسے خریدتے ہیں جہاں ہم بہت سے المیوں سے دوچار ہیں وہیں ایک نمودونمائش بھی ہے چند صاحِبان سوسائٹی میں مرکز ِ نگاہ بننے کے لیے شعبدہ بازی کرتے ہیں اپنے خریدے ہوئے جانور کی زیادہ قیمت بتاتے ہیں اور جتنے زیادہ جانور ممکن ہو سکے خریدے جاتے ہیں کہ ارگرد ان کی ٹھاٹ بیٹھی رہے ۔تاہم اللہ جل شانہ خلوصِ نیت دیکھتا ہے دِکھاوا اُسے شدید ناپسند ہے اللہ کو دل کا تقویٰ پہنچتا ہے۔
Eid al-Adha Sacrifice
ضلعی حکام کی جانب سے قائم کی گئی تمام مویشی منڈیوں کا رُخ کرنا ریت سی بن چکی ہے ادھر چہل پہل دیکھنا ایک باکمال جزو ہے اور اس بار جب ہم مویشی منڈی پہنچے تو برادرم رانا شفیق عرف Dawn” ” صاحب بھی ہمراہ تھے اور سماں میں طمانیت کی چاشنی سی تھی بہت محضوظ کُن مشاہدات ہوئے لیکن کالم کا حجم اتنا وسیع نہیں کہ انہیں بیان کروں البتہ اس سال منڈیاں مزید گچا گچ بھری ملیں خریداروں سے زیادہ شغل لگانے کے لیے پہنچے لوگ دکھائی دیئے عزیزم آغا نعمت عباس بھی ساتھ شریک تھے تاہم مویشی منڈیاں گھومنا واقع ایک دشوار کام ہے۔بچپن سے لے کر نوجوانی تک قربانی کرنے عزم رکھا ہے اور اب بھی اس پر ثابت قدم ہوں کچھ نہیں بدلا بچپن میں بھی بکروں سے ایسا رشتہ استوار ہوجاتا تھا کہ قصائی کی چھری چلتے دیکھ اشکبار ہوجاتا تھا جی ہاں آج بھی ایسا ہی ہونے والا ہے معصوم گائے اور بکرے سے بہت قربتیں بڑھا چکا ہوں اور آج انہیں رب کی رضا کی خاطر قربان کرنے جارہا ہوں۔
بڑی عید کا درس محض پکوان تناول کرنا نہیں ہے بلکہ اپنے خالق کی منشاء کے آگے اپنی مرضی کو معدوم کرنا ہے۔معاشرے کا بدنما پہلو یہ ہے کہ ہم ریاکارانہ ایثار کرتے ہیں ،انصاف سے کوسوں دور چلے جاتے ہیں غریبوں ،مسکینوں ،رشتہ داروں کے لیے نامناسب گوشت چھوڑ دیا جاتا ہے اور اپنے ڈیپ فریزرز کو بھر لیا جاتا ہے ذخیرہ کرنے کی پاداش میں قربانی کی روح متاثر ہوجاتی ہے۔ ،لطافت بھرے پکوان کی دعوت بس چیدہ چیدہ اشخاص کو دی جاتی ہے جو معاشرے میں ممتاز سمجھے جاتے ہوں لیکن کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ مفلسوں کو ساتھ شریک کر کے مساوات کی مثال قائم کی جائے معیوب بات یہ ہے کہ ا ن افکار کے متعلق گفت گو کی جاتی ہے۔
اپنے رویوں میں تبدیلی نہیں لائی جاتی۔ہر ایک سچا مسلمان رب کی بارگا ہ میں حضوع کرتا ہے اور اپنی قربانی کی قبولیت کے لیے دُعا کرتا ہے اور یہ رب کا اختیار ہے کہ وہ کس کی عبادت قبول کرے اور کس کی نہیں نیکیوں کا تخمینہ لگانا بے حد مشکل ہے کیونکہ جتنے ایک ذبح ہونے والے جانور پر بال ہوتے ہیں اتنا ثواب حاصل ہوتا ہے اوربکرا عید پرفرزندگانِ اسلام کا سب سے محبوب عمل اللہ کے نزدیک قربانی کرنا ہے۔مہنگائی کے طوفان میں متاثر شدہ لوگوں کا تلطف بہت ناگزیر ہے ان کے گھروں تک گوشت ارسال کر دینا چاہیے کیونکہ وہ مانگنے نہیں آتے۔تو آئیے آج ہم سب مغلوب اپنے ربِ غالب کی بارگاہ میں اس بات کی تجدید کریں کے ہم اپنے ہر تہوار کو ہر طبقے کے ساتھ مل جل کر منائیں گے اور اپنے اندر رقیق القلبی کا پھر سے اجراء کریں گے۔ ”عرشِ معلی کی رضاجوئی کیا کریں۔۔۔۔ یہاں لوگ فرش کے خداوُں پر اش اش کیا کرتے ہیں”