تحریر : پروفیسر رفعت مظہر ہم تو مخدوم جاوید ہاشمی کو ہی باغی سمجھتے رہے لیکن اب پتہ چلاکہ اصل باغی تو ہمارے کپتان صاحب ہیںجن کے مقابلے میںجاویدہاشمی تو ”کَکھ” بھی نہیں۔ہمیںکپتان صاحب کی بغاوت کاادراک تھااسی لیے ہم نے نوازلیگیوں کوبہت سمجھایاکہ ”نہ چھیڑملنگاں نوں” لیکن ”اثراُن پر ذرانہیںہوتا”۔ شایداُنہیں بھی ”چسکے” لینے کی عادت سی ہوچلی ہے۔اب دیکھئے ناں ! یہ”چَسکا” نہیںتو اورکیا ہے کہ ایازصادق کوایک دفعہ پھرمیدان میںاتار دیا۔خیال تویہی تھاکہ وہ بھی خواجہ سعدرفیق کی طرح سپریم کورٹ سے حکمِ امتناہی حاصل کرلیں گے لیکن وہ تو لنگوٹ کَس کے میدان میںہی اترآئے اورکپتان صاحب کو”وَخت” میںڈال دیا۔”وَخت” میںاِس لیے کہ 2002ء کے انتخابات میںایازصادق نے اُنہیں 19 ہزار اور 2013ء کے انتخابات میں 9 ہزار ووٹوںسے شکست دی۔اِس سے پہلے میاںنواز شریف صاحب عمران خاںکو 5 ہزارکے مقابلے میں 50 ہزار ووٹوںسے شکست دے چکے۔متکبر لیگئے کہتے ہیںکہ اب 50 ہزارووٹوں سے شکست دیںگے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ”اندرکھاتے” نوازلیگ سے ملے ہوئے الیکشن کمیشن نے ہمارے کپتان صاحب کوضمنی انتخابات میںعبد العلیم خاںاور جہانگیرترین کے حلقوںمیں انتخابی مہم چلانے سے منع کردیا حالانکہ یہ دونوںاصحاب توخاں صاحب کی ”جندجان” ہیںکیونکہ لمبے چوڑے عطیات توانہی سے ملتے ہیں۔
اگرتحریکِ انصاف کے یہ دمکتے ستارے ”روٹھ” گئے توہم ڈی جے بَٹ توکجا ٹینٹ سروس والوںکو بھی پیسے دینے کے قابل نہیںرہیں گے ۔ہیرے موتیوںکے بھاؤ بِکنے والے اِن ”نگینوں” کی انتخابی مہم میںحصّہ نہ لینے کے حکم نے خاں صاحب کومغضوب الغضب کردیا اوراُنہوںنے اعلانِ بغاوت کرتے ہوئے کہہ دیا”ایسے دستور کو ، صبحِ بے نور کو ِ ، میں نہیں جانتا ، میں نہیں مانتا”۔خاںصاحب کی اِس بغاوت پرہم بہت خوش ہیںکہ ایک دفعہ پھر”دھوم دھڑکا” ہوگا لیکن تھوڑے تھوڑے ڈرے ہوئے بھی کہ کہیںسپریم کورٹ اُنہیں”پھڑکا” کے نہ رکھ دے اور الیکشن کمیشن اُن کی ”پَکّی پکّی چھُٹی” نہ کروادے۔ اگرکارزارِ سیاست میںخاںصاحب نہ ہوئے توجلسے جلوسوںاور دھرنوں میں ”کَکھ سواد” نہیںآئے گا۔
یہ بجاکہ 20 جنوری 2013ء کو الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوںکی مشاورت سے 40 نکات پرمشتمل ضابطۂ اخلاق جاری کیاجس میںضمنی انتخابات کے لیے یہ شِق بھی شامل تھی کہ الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعدصدر ،وزیرِاعظم ،سپیکر وڈپٹی سپیکر، چیئرمین وڈپٹی چیئرمین سینٹ ،گورنر ،وزرائے اعلیٰ ،وزراء ،وزرائے مملکت اوروفاقی وصوبائی اراکین نہ توکسی حلقے کادورہ کریںگے اورنہ ہی خفیہ یااعلانیہ طورپر کوئی پیش کش کریںگے، عطیہ دیںگے نہ وعدہ کریںگے اورکسی منصوبے کاافتتاح کریںگے نہ منصوبے کاوعدہ کریںگے لیکن کپتان صاحب جیسی عظیم ترین ہستی کے استثناء کے لیے کوئی ”نظریۂ ضرورت” گھڑاجا سکتاتھا جوخاں صاحب کے ازلی ابدی دشمن الیکشن کمیشن نے گھڑا ،نہ گھڑنے کاارادہ اِس لیے بغاوت توبنتی ہے
Supreme Court
دوستو! ۔ خاںصاحب توخیرقومی لیڈرہیںلیکن یہاںتو چیونٹیوں کے بھی پَرنکل آئے۔ سپریم کورٹ نے ”نفاذِاُردو” کاحکم صادرفرمایا لیکن ہماری افسرشاہی نے کہا ”ظلم کے ضابطے ، ہم نہیںمانتے”۔ نفاذِاُردو انگریزوںکے ذہنی غلاموںپر تو ظلم ہی کے مترادف ہے لیکن ہماری قومی شناخت ؟۔ ”نفاذِاُردو تحریک” کے شعبہ خواتین کی صدر اور نفاذِاُردو کی جذباتی حامی محترمہ فاطمہ قمر سے اکثراِس موضوع پرگفتگو ہوتی رہتی ہے ۔اُن کابھی یہی خیال ہے کہ نفاذِاُردو کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ”افسرشاہی” ہی ہے ۔افسرشاہی کوتو رکھیے ایک طرف ،یہاںتو کئی لکھاری بھی”جِزبِز” ہورہے ہیں۔ایک معروف اخبارکے لکھاری جوماشاء اللہ” بیرسٹر” بھی ہیں، اُنہوںنے انگریزی زبان کے حق میںکالم لکھتے ہوئے فرمایاہے کہ میاںنواز شریف کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میںاُردوکی بجائے انگریزی میںخطاب کرناچاہیے، وجوہات اُنہوںنے دو بتلائیںلیکن دلائل ناقص اوربھونڈے ۔پہلی وجہ یہ کہ مترجم کبھی بھی اصل الفاظ اورجذبات کی ترجمانی نہیںکر سکتا، مثال یہ کہ ”پنجابی کاکرپشن کے بارے میںایک جملہ یامحاورہ ہے ”اوتھے انّی پئی ہوئی اے” جس کا انگریزی میں مترجم نے ترجمہ یوںکیا Blind woman as lying there ۔” عرض ہے کہ کیایہ قصور پنجابی زبان کاہے یااُس نااہل اورنالائق مترجم کاجسے اتنابھی نہیںپتہ کہ پنجابی میں”انّی پئی”کا مطلب کرپشن ہوتاہے۔
ویسے اطلاعاََ عرض ہے کہ مترجم ہمیشہ وہی شخص ہوتاہے جسے دونوںزبانوں پرعبور ہو ۔چلیں مان لیاکہ مترجم نالائق توکیا میاںصاحب کی اُردومیں کی جانے والی تقریرکا بامحاورہ انگریزی میںترجمہ کرکے مترجم کونہیں دیاجا سکتا؟۔جنرل اسمبلی سے ہرملک کاسربراہ اپنی قومی زبان میںہی خطاب کرتاہے لیکن ایسا ”لطیفہ” سُنا نہ سُننے کاامکان جیساکہ بیرسٹرصاحب نے لطائف کی کسی کتاب سے پڑھ کراپنے کالم کی زینت بنادیا۔بیرسٹرصاحب نے یہ بھی لکھا ”میرامشورہ ہے کہ وزیرِ اعظم پاکستان اقوامِ متحدہ میںانگریزی زبان میںتقریر کرکے یہ پیغام دیںکہ ہم پاکستانی تعصب کی سیاست سے پاک ہیں”۔
بجاارشاد ، سوال مگریہ کہ کیا چین ،روس ،فرانس ،جاپان ،جرمنی اوردیگرممالک جواپنی قومی زبان میںخطاب کرتے ہیںوہ سبھی بیرسٹرصاحب کی نگاہ میںمتعصب ٹھہرے اورتعصب سے پاک صرف انگریزی میںتقریر کرنے والے؟۔ ایسی بھونڈی دلیل کی کسی بیرسٹرسے توبہرحال توقع نہیںکی جاسکتی لیکن چونکہ وہ بیرسٹرہیں اِس لیے ”جو چاہے اُن کا حسنِ کرشمہ سازکرے”۔ ابھی کل ہی کی بات ہے عظیم چین کے صدر تین روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے اوردورانِ قیام اُنہوںنے انگریزی کاایک لفظ بھی ادانہیں کیا ۔کیاوہ بھی بیرسٹرصاحب کی نظرمیں متعصب ٹھہرے؟۔ ویسے بیرسٹرصاحب کواتنا توپتہ ہی ہوگا کہ سپریم کورٹ کی حکم عدولی کی سزاکیا ہے ؟۔ کیا بیرسٹرصاحب چاہتے ہیںکہ میاںنواز شریف صاحب بھی ”میںنہ مانوں” کانعرہ لگاکر اپنا انجام یوسف رضاگیلانی جیساکروالیں؟۔