تحریر : ایم آر ملک برسوں بعد میں شہر قائد میں داخل ہو رہا تھا اور ان برسوں میں شہر قائد میں زندگی، زندگی سے زندگی کی بھیک مانگتی رہی ،تین تلوار چوک میں مجھے بھٹو کا تیسرا قتل یاد آیا اُس روز جواں سال مرتضیٰ بھٹو کی برسی بھی تھی جس روز اُس کے قاتل نے اپنی سیاست چمکانے کیلئے اور بھٹو کے ووٹ بنک کو اپنی کرپشن بچانے کیلئے استعمال کرنے کا کارڈ کھیلا، بھٹو کے ساتھی ممتاز بھٹو نے بڑی خوبصورت بات کہی ہے کہ ”کئی سالوں سے دبئی میں مقیم زرداری نے شہید میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل پر منہ کھولا ہے اُسے چاہیئے کہ سب سے پہلے اُن سوالوں کا جواب دے جو محترمہ غنویٰ بھٹو نے کئے ہیں۔
اس کے بعد میرے بھی کچھ سوال ہیں کہ قاتل پولیس اہلکاروں سے زرداری نے میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل سے ایک رات قبل پہلے وزیر اعلیٰ ہائوس کراچی میں ملاقات کیوں کی تھی اور اس ملاقات میں کونسے فیصلے ہوئے تھے ؟دوسرا سوال یہ کہ اُس وقت کے ڈی آئی جی سائوتھ کراچی شعیب سڈل کو جب ایس پی واجد درانی نے قتل کی اطلاع دی تو شعیب سڈل نے یہ کیوں کہا کہ اب اسلام آباد والے خوش ہوں گے اور وہ اسلام آباد والے کون تھے ؟اس کے علاوہ ایس ایچ او حق نواز کو واقعے کے بعد ایسے قتل کیا گیا جیسے شہید بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد خالد شہنشاہ کو مارا گیا اِس قتل کا اب عزیر بلوچ نے اعتراف کیا ہے کہ زرداری کے حکم پر خالد شہنشاہ کو قتل کیا دوسری طرف پولیس کا میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل میں یہ دعویٰ تھا کہ اُنہوں نے میر مرتضیٰ بھٹو اور اُس کے ساتھیوں کو جوابی فائرنگ میں قتل کیا جو دعویٰ عدالت نے مسترد کر دیا ہے تو پھر پولیس کو قتل کی سزا ملنے سے بچانے والا کون ہے ؟
اُس روز میں شہر قائد میں تھا جس روز ممتاز بھٹو نے زرداری سے مذکورہ سوالات کے جوابات مانگے فخر ایشیا کی آئیڈیالوجی کو مسخ کرنے والا شخص جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد اُس کی پارٹی کو دبئی سے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلا رہا ہے نہ صرف مسٹر سینٹ پرسینٹ ہے بلکہ دہشت گردوں کا سہولت کار بھی ہے ڈاکٹر عاصم جیسا شخص اس کی ایک بڑی مثال ہے جس کی ایمبولینسزبے گناہ شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کیلئے اسلحہ ڈھوتی رہیں اور بدنام زمانہ ماڈل ایان شہر قائد سے وصول ہونے والا یہ بھتہ دبئی میں پہنچاتی رہی ،ایم کیوایم کے بھتہ خور شہر کے تاجروں کو مطلوبہ رقم کی پرچی بھیجتے اس پر زرداری کا ٹولہ بھی عمل پیرا ہوا اور پی پی کے وہ غنڈے جو زرداری نے پالے ہوئے تھے بھتہ کی پرچیاں بھیجتے کراچی کا تاجر طبقہ خوفزدہ تھا وہ سمجھتا کہ یہ پرچی ایم کیو ایم کے بھتہ خوروں کی طرف سے آئی ہے۔
وہ زرداری کے غنڈوں کی طرف سے ہوتی اور تاجر جب زرداری کے غنڈوں کو بھتہ ادا کر دیتے تو کچھ دیر بعد ایم کیو ایم کے غنڈے پہنچ جاتے وہ اُس متاثرہ تاجر سے دوبارہ اپنے لئے رقم مانگتے جس پر وہ انکار کرتا اور اُسے قتل کر دیا جاتا ؟لیاری میں ارشد پپوکی کہانی کسٹم ہائوس میں بیٹھے ہوئے ایک نوجوان نے مجھے سنائی کہ ارشد پپو کا جرم یہ تھا کہ وہ عزیر بلوچ کے مظالم کے خلاف کھڑا ہوا زرداری کے غنڈے نے اس طرح مارا کہ اُس کو ریڑھی پر باندھا گیا پہلے اُس کے بازو کاٹے گئے پھر اُس کا سر کاٹا گیا اور عزیر بلوچ ارشد پپو کے کٹے ہوئے سر کو پیروں سے ٹھڈے مارتا رہا ان مناظر کی باقاعدہ وڈیو بھی بنی جو ایک خوفناک منظر کی عکاسی تھی۔
Karachi Terrorism
مگر اس بار شہر قائد میں داخل ہوتے وقت مجھے پنجاب کی دھڑکن کی طرح مہران بھی اپنا دل لگا ،یہ سارا کریڈٹ جنرل بلال اکبر کو جاتا ہے جس نے شہر کو امن کا تحفہ دینے کیلئے پھولوں کی پتیوں کی طرح جا بجا رینجرز کے نوجوانوں کو بکھیر دیا ہے ۔اُس روز صدر کی طرف جاتے ہوئے جب جلتی دوپہر اور گرم ہوا کے تھپیڑے ،سورج کی جسم کو نوچتی ہوئی تیز دھوپ اپنی شدت کی آخری انتہا کو پہنچی ہوئی تھی اور اپنی تمام قوت لگا کر انسان کو ڈگمگانے اور لڑکھڑانے پر مجبور کر رہی تھی تو شہر پر 1985سے چھائی دہشت کے خلاف دیوانہ وار مقابلہ کرنے والے رینجر کے عظیم نوجوان شہر کی چھاتی پر کھڑے پوزیشنیں سنبھالے اپنا فرض نبھاتے نظر آئے تو میری آنکھیں بے اختیار نم ہو گئیں۔
یہ عظیم لوگ ایک ایسا فرض ایک ایسا عہد ،ایک ایسا حلف نبھا رہے ہیں ،بیوی بچوں ،ماں باپ سے سینکڑوں میل دور حوادث اور تھپیڑوں کے باوجود دلوں میں ایمان کی حرات اور دھرتی سے محبت کا جذبہ لئے مضبوط قلعہ کی طرح ہیںجس میں شگاف نہیں ڈالا جاسکتا مدت سے ترستے امن کو شہریوں کی آنکھیںشاہرات کے کناروں پر جابجا راحیل شریف کی تصاویر کو چومتی ہیں ہر شہری یہ محسوس کرتا ہے کہ گھر سے نکلتے ہوئے اُس کی پشت پر جنرل بلال اکبر کھڑا ہے راحیل شریف ایک سائے کی طرح ہر شہری کا ہم سفر ہے اور یہی احساس شہر قائد کے باسیوں کو خوف کے حصار میں داخل نہیں ہونے دیتا۔
اب ہر طلوع ہوتی ہوئی صبح کے ماتھے پر شکست تحریر نہیں ہوتی اور اس شکست میں قید نہیں جھانکتی ورنہ کراچی کے حسنی مبارک کے ایک آرڈر پر شہر قائد کی قید میں تو زندگی سسکتی رہی ، سلگتی رہی ،چیختی ،کرلاتی رہی اور بالآخر چپ ہوتی رہی اُس کے رخسار سے ڈھلکتے آنسو کوئی پونچھنے نہ آیا ۔زرداری سے لیکر نواز شریف تک کراچی کے حُسنی مبارک کے معاون بنے رہے عدم تحفظ ،خوف ، بے اطمینانی ،ہر شہری کو سیاہ ہیولے کی طرح اپنی لپیٹ میں لیے رہا اور خوف کے ان ہیولوں کی چادر کو وطن کے بیٹوں نے پارہ پارہ کردیا اب رات گئے تک شہر کی رونق کا چاند اپنے عروج کے آسمان پر چمکتا ہے ،پبلک مقامات پر ایم کیو ایم کی غنڈہ گردی پر عوام کھل کر بحث کرتی ہے ٹی ہائوسز آباد ہو چکے ہیں ۔چہروں پر وہ خوشی ہے جو دل سے پھوٹتی ہے اور چہرے پر آکر لوسی دینے لگتی ہے شہر کے باسیوں کے تاثرات ہیں کہ کراچی کا حسنی مبارک اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے یہ سارا کریڈٹ جنرل بلال اکبر کو جاتا ہے۔