تحریر : روہیل اکبر اللہ تعالی نے ہر انسان کو ایک منفرد حیثیت میں پیدا کیا ہے پیدائش سے لیکر موت تک آپ کسی اور جیسے نہیں بن سکتے نہ کوئی آپ جیسا بن سکتا ہے اس وقت دنیاکی آبادی تقریبا 7 ارب 39 کروڑ 23 لاکھ 68 ہزار لوگوں پر مشتمل ہے اور ہر گذرنے والے سیکنڈکے ساتھ ہی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں انکی بظاہر ظاہری شکل و صورت اور حرکات ایک جیسی ہوسکتی ہیں مگر اللہ تعالی نے ایک انسان کو جوخوبی اور اسے جو خاص شناخت دی ہے وہ دنیا میں کسی اور کے پاس نہیں ہے۔
صرف آپ اپنے انگھوٹے کی الٹی سیدھی لکیروں کو ہی دیکھ لیں کہ جب آپ اپنے انگوٹھے کو ایک چھوٹی سی مشین کے اوپر رکھتے ہیں تو وہ مشین آپکا سارا ریکارڈ نکال باہر کرتی ہے یہ صرف پاکستان میں ہی آپ کی پہچان کا زریعہ نہیں بلکہ دنیاکے کسی بھی کونے میں آپ چلے جائیں آپ کا انگوٹھا جیسے ہی مشین کے چھوٹے سے شیشے پر لگے گا تو آپ کا سارا ریکارڈ معلوم ہوجائے گامگر ہم نے خدا کی طرف سے دی ہوئی خصوصیات کو اپنے اندر نمایاں نہیں ہونے دیا اور اپنے کام سے کتنے مخلص ہیں یہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں جیسے ہی ہمارے پاس کوئی اختیار آجاتا ہے تو تکبر اور غروربھی ہمارے ساتھ آکر چمٹ جاتا ہے جو اللہ تعالی کو سخت ناپسند ہے اور جو ذمہ داری ہمیں سونپ دی گئی ہم اسکا معیار بھی پیسوں میں تول کرطے کرتے ہیں دنیا میں وہی لوگ نامور اورکامیاب ٹہرے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو پہچان کر ایمانداری اور محنت سے اپنے حصے کا کام کرنا شروع کر دیا۔
ہم میں سے اکثریت ایسے افراد کی ہے جنہیں جو کام سونپ دیا گیا وہ اس پر بھی ڈنڈی مار جاتے ہیں اگر انسان اپنی حقیقت پہچان لے تو پھر دنیا کی باقی تمام حقیقتیں اسکے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتی کیونکہ 7کروڑ سے زائد کی آبادی میں ہر انسان کی حیثیت سب سے الگ ہے یہ اب آپ پر منحصر ہے کہ آپ نے اپنی صلاحیتوں کو مثبت یا منفی انداز میں استعمال کرتے ہوئے اپنی پہچان کو کہاں تک پہنچاتے ہیں اور ان افراد میں نمایاں ہونا ہے جو دنیا میں نامور بن گئے اس کے لیے بہت زیادہ بھاگ دوڑ کی ضرورت نہیں بس اللہ تعالی نے جو آپ کو زہن دے رکھا ہے۔
اسکا استعمال مثبت انداز میں کرنا شروع کردیں اگر لوگوں کو عزت دینا اور معاف کرناہی انسان کو سمجھ آجائے تو اس سے طاقتور انسان بھی کوئی نہیں ہے مگر ہم نے اپنی سوچوں کا زاویہ تبدیل کررکھا ہے اس میں ہمار ے والدین اور اساتذہ کی تربیت کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے انسان ہر وقت اپنے فیصلوں کی بدولت ایک بارڈر لائن پر کھڑا ہوتا ہے اسکے اچھے فیصلے اور اچھی سوچ اسے بلندیوں کی طرف لے جاتی ہے جبکہ بری سوچ سے نہ صرف انسان خودپریشان ہوتا ہے بلکہ اسکے اردگرد والے بھی اس سے پناہ مانگتے ہیں انسانی سوچ ریلوے لائن کا وہ کانٹا ہے جیسے انسان خود اپنے ہاتھوں سے تبدیل کرتا ہے صرف ایک لیور دبانے سے ٹرین کا رخ مشرق سے مغرب کی طرف مڑ جاتا ہے بلکل اسی طرح اچھے یا برے راستے کا تعین کرنا بھی انسان کے اپنے اختیار میں ہے مگر اسکے لیے ضروری ہے۔
Pakistan
انسان کی تربیت اس ماحول میں ہوئی ہو جہاں سے اچھے اور برے میں فرق کرنے کا طریقہ سمجھ آجائے بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے دہشت گرد بھی اسی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور دنیا میں اپنی شناخت قائم کرنے والے بھی ہمارے اسی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے کام اور ہنر کی بدولت معتبر ٹہرے اسی لیے تو امریکہ کی سابق وزیر خارجہ اور ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی نامزدگی دوڑ میں شامل اہم امیدوار ہلری کلنٹن نے لاس اینجلس میں معروف پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر آصف محمود کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوئی کہ پاکستانی باصلاحیت اور زبردست لوگ ہیں اور اْن میں کامیابی کے حصول کی بھرپور اہلیت موجود ہے ان کی صلاحیتوں کو اس لیے بروئے کار نہیں لایا جا سکا۔
کیونکہ وہاں ایک اچھے نظام حکومت اور اچھی معیشت کے لیے درکار درست اجزا موجود نہیں مگر جب پاکستانی امریکہ آتے ہیں یا کسی دوسرے ملک میں جاتے ہیں تو وہ ’’انتہائی کامیاب‘‘ ہوتے ہیں۔ ہیلری کلنٹن کے یہ الفاظ بلکل درست ہیں ہم بہت باصلاحیت قوم ہیں انتہائی غربت ،بے بسی اور لاچارگی کے عالم میں بھی ہم نے دنیا میں اپنا لوہا منوایا ہے اتفاق فاؤنڈری والا نہیں بلکہ حقیقت میں ہم نے اپنا وجود تسلیم کروایا ہے اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ باہر کی دنیا میں ہمیں کام کرنے کا پورا موقعہ دیا جاتا ہے وہاں کا ماحول ہماری طرح سفارشی اور راشی نہیں ہوتا وہاں کا نظام انصاف ہماری طرح کا انصاف نہیں کرتا،ہماری طرح وہاں اپنوں کو نوازا نہیں جاتا۔
اشتہارات کے نام پر پیسے کی بندر بانٹ نہیں کی جاتی ،نہ وہاں پر ہماری طرح ایک فیصد طبقہ ملک کے تمام وسائل پر قابض ہے اور نہ ہی وہاں کی پولیس مظلوموں کی دشمن اور ڈاکوؤں کی محافظ بنتی ہے بلکہ وہاں حق دار کو ڈھونڈ کر اسے اسکا حق دیا جاتاہے فکر معاش سے آزاد اور علاج معالجہ کی درد سری سے دور ہوکر انسان کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقعہ ملتا ہے مگر ان تمام مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود ہم نے دنیا کو بتایا ہے کہ پاکستانیوں پر اللہ تعالی کا خاص کرم ہے کہ یہ بار بار لٹنے کے باوجود اس مکڑی کی طرح دیوار پر چڑھنے کی بار بار کوشش کرتی ہے جسے دیکھ کر شکست خوردہ بادشاہ نے حوصلہ پکڑ کر فتح کے جھنڈے گاڑ دیے تھے ہم تو اشرف المخلوقات ہیں۔
اللہ تعالی نے زمین و آسمان ہمارے لیے بنائے ہیں اور ہم میں حوصلہ بھی دیا ہے مگر بات صرف یہاں پر آکر رک جاتی ہے کہ ہم اپنے حوصلے کو پس پشت ڈال کر انتقام کی آگ میں جلنا شروع کرکے اپنی شناخت کھو دیتے ہیں جسکی وجہ سے ہماری صلاحیتیں جل کر خاکستر ہو جاتی ہیں اور پھر یہی انتقام ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر ہمارے سامنے آکھڑا ہوتا ہے اگر ہم نے اپنے آپ کو بدلنا ہے تو سب سے پہلے اپنے ارادے مضبوط اور حوصلے بلند کرنا ہونگے کیونکہ کوئی ہم سا نہیں ہے۔