تحریر: مسز جمشید خاکوانی بھارت کی ریاست اتر پردیش (یوپی) میں ایک گائوں کی پنچایت کونسل نے دو نوجوان لڑکیوں کے ساتھ حرام کاری کا حکم دیا ہے پنچایت نے یہ فیصلہ ان لڑکیوں کے بھائی کے اعلی ذات کی ایک عورت کے ساتھ بھاگ جانے کی پاداش میں دیا ہے ۔بھارتی اخبات ہندوستان ٹائمز میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق تیئیس سالہ مناکشی کماری اور اس کی پندرہ سالہ چھوٹی بہن کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ نیچ ذات ”دلت ” سے تعلق رکھتی ہیں ۔ان کا بھائی جٹ برادری کی ایک شادی شدہ عورت کو بھگا کر لے گیا تھا یا وہ خود اس کے ساتھ بھاگ گئی تھی ۔گائوں کی پنچایت کونسل نے اس جرم کی پاداش میں نہ صرف ان دونوں لڑکیوں سے حرام کاری کا حکم دیا ہے بلکہ انہیں ننگا کرکے منہ کالا کر کے گائوں میں پھرانے کا حکم بھی دیا ہے پنچایت کے اس حکم اور دھمکیوں کے بعد مناکشی کماری اور اس کا خاندان اتر پردیش کے ضلع بھاگ پت سے بھاگ کر دارلحکومت نئی دہلی آ گئے ہیں۔
یہ معاملہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ”ایمنسٹی انٹر نیشنل ” کی مداخلت کے بعد سامنے آیا ہے ایمنسٹی نے مقامی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری مداخلت کریں اور لڑکیوں کے ساتھ زیادتی ہونے سے روکیں ۔ایمنسٹی نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ اس قابل نفرین سزا کا کوئی بھی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا ۔یہ منصفانہ ہے ،نہ ہی درست اور قانون کے بھی خلاف ہے ۔ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق مناکشی کماری نے بھارت کی عدالت عظمی میں بھی ایک درخواست دائر کی ہے جس میں اس نے استدعا کی ہے اسکو اور اسکے خاندان کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔اس نے الزام عائد کیا ہے کہ مقامی پولیس نے جٹ خاندان کے دبائو پر اسکے بھائی کے خلاف منشایات کا جھوٹا مقدمہ بھی درج کر لیا ہے ۔جبکہ مقامی عدالت اس کے بھائی کو ضمانت دے چکی ہے لیکن وہاں اس کی رہائی کے لیئے ضمانتی دستاویزات کی تیاری کی غرض سے گائوں جانے سے خوفزدہ ہیں۔
Investigation
عدالت عظمی کے ایک بنچ نے حکام کو ایک نوٹس جاری کر دیا ہے اور اس واقعے کی تحقیق کا حکم دیا ہے مناکشی نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ اس کا بھائی اور جاٹوں کی لڑکی گذشتہ تین سال سے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے لیکن اس لڑکی کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کسی اور لڑکے سے کر دی گئی ۔شادی کے ایک ماہ بعد وہ لڑکی اپنے خاوند کے گھر سے بھاگ کر اس کے بھائی کے ساتھ چلی گئی ان دونوں نے بعد میں خاندان والوں اور پولیس کے تشدد کے بعد خود کو حوالے کر دیا اس لڑکی کو اس کے والدین کے حوالے کر دیا گیا اور مناکشی کے بھائی کو منشیات کے جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا تھا یہ لڑکی مبینہ طور پر حاملہ ہے ۔مناکشی کے خاندان کے جان بچا کر دہلی چلے جانے کے بعد جٹ برادری نے ان کے مکان کو نذر آتش کرنے کے بعد اس پر قبضہ بھی کر لیا ہے ۔واضح رہے کہ بھارت کے دیہاتوں میں آج بھی ذات پات کی تفریق اور اونچ نیچ کا نظام قائم ہے واہاں نیچ ذات خصوصاً ”دلت ” کو اچھوت سمجھا جاتا ہے اور ان سے انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے ۔
قارئین! آپکو یاد ہوگا بعین یہی واقعہ ملتان کے قریب کے ایک موضع کوٹ ادو میں مختاراں مائی کے ساتھ پیش آیا تھا جس مختاراں مائی کے بھائی کے جرم کی سزا اسے بھگتنی پڑی تب بھی پنچایت ہی نے یہ فیصلہ کیا تھا ۔یہ دونوں واقعات ایک جیسے ہیں ان میں فرق صرف اتنا ہے کہ بھارت میں ذات پات کی اونچ نیچ زیادہ ہے اور ہمارے ہاں دولت اور غربت کی اونچ نیچ پائی جاتی ہے ۔بھارت میں وہ نیچ ذاتوں کو اوپر آنے ہی نہیں دیتے ان میں بقول ان کے ملچھ مسلمان بھی شامل ہیں نہ ان کو تعلیم کا حق دیا جاتا ہے نہ کسی کلیدی عہدے پر لایا جاتا ہے جو مسلماں اوپر آئے ہیں وہ بھی یا تو نام کے مسلمان ہیں یا پھر اکثر زیر عتاب رہتے ہیں۔
Behavior
یہی حال ہمارے ہاں امارت اور غربت کی صورت میں موجود ہے امرا شرفاء میں شمار ہوتے ہیں تو غربا کمینوں میں گنے جاتے ہیں اور کوئی غریب اس فرق کو ختم کرنے کا تصور بھی کر لے تو اس کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے جو مناکشی اور مختاراں مائی کے ساتھ ہوا یہ بات اور بھی شرمناک ہے کہ اکثر انتقام کی بھینٹ عورت چڑھتی ہے ہر ادلے کا بدلہ اسی سے لیا جاتا ہے شادی ایک مقدس فریضہ ہے مگر عورتیں اس حق سے محروم ہوتی ہیں کہ انکی رضا بھی پوچھ لی جائے جبری شادیاں بھی ایسے المناک واقعات کو جنم دیتی ہیں۔
حال ہی میں ہمارے ایک مزارعے کے رشتہ دار کی لڑکی اپنے ہی ماموں کے بیٹے کے ساتھ بھاگ گئی کیونکہ اس کی شادی پھوپھی کے بیٹے کے ساتھ ہو رہی تھی یہ جان لینے کے باوجود لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں والدین نے انا کا مسلہ بنائے رکھا نتیجہ یہ ہوا عین شادی والے دن لڑکی لڑکا گھر سے بھاگ گئے باپ صدمے سے چل بسا اور ساری برادری میں تھو تھو الگ ہوئی ابھی تک اس جوڑے کی تلاش جاری ہے کیا ہی اچھا ہو کہ ایسی باتوں کو انسانی بنیادوں پر حل کیا جائے تاکہ ایسے واقعات جنم نہ لیں نہ ہی بدلے میں مجبور لڑکیا انتقام کی بھینٹ چڑھیں!