تحریر: شہزاد حسین بھٹی پاکستان جب معرض ِوجود میں آیا تو اس ملک کے آئین میں پاکستان کو ایک جمہوری مملکت قرار دیا گیا۔ آئین میں یہ قرار پایا کہ ملک میں پارلیمانی نظام رائج ہو گا حکومت کسی ایک شخص کی بجائے پوری پارلیمنٹ کے پاس ہو گی۔ اس مملکت کے نام اور آئین کے مطابق یہاں جمہوریت کا دور دورہ ہو گا لیکن آغازِ سفر سے ہی جمہوریت اس ملک میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
آزادی کے حصول اور قائداعظم کے انتقال کے بعد ملکی سیاست میں ایک بہت بڑا خلاء پیدا ہو گیا اور حکومت حاصل کرنے کی خاطر سیاسی قتل کئے جانے لگے ۔ان قتلوں میں محترمہ فاطمہ جناح اور لیاقت علی خان تک شامل تھے ۔ جمہوریت کی کمزوری کی وجہ سے 1958میں پہلی بار فوج نے مارشل لاء لگا کر ملک کے انتظامی امور سنبھال لیے ۔سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک میں تین بار بالترتیب 1958,1977,1999 میں ایوب خان ، ضیاء الحق اور پرویز مشرف ہیں مارشل لاء لگایا اور پالیمانی حکومت کو ختم کرکے ملک کے انتظامی امور سنبھالے ۔2013 تک پاکستان میں کسی ایک سیاسی حکومت نے بھی اپنا مقررہ وقت مکمل نہیں کیا تھا ۔اور نہ ہی ملکی انتظام ایک سیاسی حکومت سے دوسری تک منتقل ہو پایا ۔ اس کی بنیادی وجہ سیاست دانوںکی نااہلی ہے۔
چند بر س پہلے تک ملک میں بنیادی طور پر دو جماعتیں تھیں ۔ ایک مسلم لیگ ایک پیپلز پارٹی ۔یہی جماعتیں بالترتیب حکومت اور اپوزیشن میں رہی ۔ اس کے علاوہ سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ۔ان تینوں جماعتوں میں سیاسی راہنمانسل در نسل ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ملک میں پہلی بڑی سیاسی جماعت پپلز پارٹی کی مثال لیں ۔1970 ء کی دہائی کے بعد معرض وجود میں آنے والی یہ پارٹی جس کو بنانے والے ذولفقار علی بھٹو تھے۔
Mohammad Ali Jinnah
انھوں نے اس پارٹی کی بنیاد روٹی کپڑا اور مکان کے بنیادی حقوق کی فراہمی پر رکھی۔ ان کی کامیابی اور پیپلز پارٹی کی سندھ میں مقبولیت کے بعد سے آج تک پیپلز پارٹی کی سیاسی قیادت بھٹو خاندان ، زرداری خاندان یا اس خاندان کے رشہ داروں تک محدود رہی اورآج تک بھٹو خاندان تک ہی محدود ہے ذولفقارعلی بھٹو کوپھانسی دئیے جانے کے بعد اس پارٹی کی قیادت ان کی بیٹی محترمہ بینظر بھٹو نے سنبھالی ، ان کے قتل کے بعد یہ قیادت آج کل بینظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو کے پاس ہے جبکہ بینظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری پانچ برس تک اس ملک کے صدر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں ۔ اس پارٹی کے کارکن چاہے کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دیں پارٹی قیادت اور پارٹی کے اعلیٰ عہدے اسی خاندان تک محدود رہیں گے ۔ صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں ملک کی دوسر ی بڑی جماعت مسلم لیگ کی بھی کچھ یہی صورت حال ہے مسلم لیگ کی قیادت میاں خاندان کے پاس ہے اور حال میں مسلم لیگ کے میاں نواز شریف ملک کے وزیر اعظم جبکہ انھی کے بھائی میاں شہباز شریف صوبہ پنجاب کے وزیر اعلی ٰ ہیں ۔ جبکہ ان کے بھتیجے حمزہ شہباز شریف اور بیٹی مریم نواز بھی سیاست میں آچکے ہیں ۔گویا بلاول بھٹو زرداری جن کو پاکستان کی سیاست تو درکنار پاکستان کی معاشرتی اقدار تک کے بارے میں آگاہی نہیں ۔ حمزہ شہباز شریف یا مریم نواز ،آنے والے وقت میں ان پارٹیوں کی قیادت سنبھالیں گے ۔ ان کے علاوہ کسی میں صلاحیت ہو یا نہ ہو وہ پارٹی کی قیادت نہیں سنبھال سکتا ۔ کیونکہ ہمارے یہاں سیاست اور قیادت بھی مو روثی جائیداد کے طرح اگلی نسلوں کو منتقل ہوتی ہے اور اس منتقلی میں خاندان کے علاوہ کسی کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔
1996ء میں تحریک انصاف کے قیام کے بعد یہ پارٹی پاکستانی سیاست میں ایک تیسری قوت بن کر ابھری ۔اور اس وقت یہ پارٹی ملکی سیاست میں تیسری بڑی پارٹی ہے ۔حالیہ الیکشنزمیں تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر ابھری ہے جس کی قیادت عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ پرانے سیاست دانوں کو اس پارٹی میں جگہ نہیں دیں گے لیکن وہ اپنے وعدے پر پورے نہیں اتر پائے ۔ اس پارٹی میں بھی وہ سیاست دان جن کے باپ دادا سے سیاست انھیں منتقل ہوئی نہ صرف شامل ہوئے بلکہ اس پارٹی کے اعلی ٰعہدوں پر بھی فائز ہیں ۔ ان سیاست دانوں میں شاہ محمود قریشی وائس چیئر مین ، جہانگیر ترین سیکریڑی جنرل اور شیرین مزاری شامل ہیں ۔یہ وہ سیاست دان ہیں جو کہ مسلم لیگ ، پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر ابھرتی ہوئی اس تیسری سیاسی قوت کے ساتھ شامل ہو ئے۔
اگر پوری ملکی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو یہ امر واضع ہو جاتا ہے کہ آج پاکستان کی سیاست پر وڈیروں ، جاگیرداروں ، نسل درنسل حکمرانی کرنے والے سیاست دا نوں کا راج ہے ۔ سرمایہ دار سیاست دان بن چکے ہیں ۔ اس ملک کی سیاست چند ہی ہاتھوں میں ہے ، کچھ خاندان چاہے وہ اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل ہو ں یا نہیں ۔ جب آئین میں شک پاس ہوئی کہ ملکی سیاست ان کے ہاتھ میں آئے گی جن کے پاس گریجویشن کی ڈگری ہو گی تو انھی سیاست دانوں نے جعلی ڈگریاں کورٹ میں پیش کر دی۔
پاکستان میں بسنے والی آبادی کا دو فی صد حصہ بقایا اٹھانویں فی صد کے ادا کئے گئے ٹیکس پر عیاشی کرتا نظرآتا ہے ۔پچھلے دس سالوں میں ملکی ترقی کی شرح نمودس فی صد سے کم ہے جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ملک میں موجود حکمرانوں نے ملک کا پیسہ اپنے اکائونٹس میں جمع کر رکھا اور یہ وہ طبقہ جو نہ صرف ٹیکس نہیں دیتا بلکہ ملکی کا ایک بڑا حصہ اپنے اکائونٹس میں منتقل کرتا رہتا ہے ۔ یہ ملک کی وہ اشرافیہ ہے جو تمام تر کرپشن کی ذمہ دار ہے۔