تحریر : سفینہ نعیم قوموں کا عروج ترقی کا مرہونِ منت ہے۔ جو قوم علمی سفر میں پیش پیش ہو اسے نہ صرف عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بلکہ اس قوم کی عظمت کا ڈنکا بجتا ہے علم ایسا نور ہے جس سے جہالت کی تا ریکیاں کا فور ہو تی ہیں۔ یہ ایسی قوت ہے جس سے تسخیرِ کائنات کا سبق ملتا ہے۔یہ ایسی لا زوال دولت ہے جس سے انسان عز ت و وقار اور عظمت و سیادت کے مقامِ رفیع پر فائز ہوتا ہے۔
دنیاوی چہل پہل ،آرائش و زیبائش اور ما دی ترقی علم کا ہی کر شمہ ہے ۔ اگر انسان مادی خسارے کا شکار ہو جا ئے ۔اس سے ما ل و متاع چھن جا ئے ۔ کوئی آفت یا حا دثہ ا س کی مملوکہ اشیا کو نیست و نا بود کر دے تو اس کی تلا فی ممکن ہے ۔بشر طیہ کہ علم کا سرمایا اس کے پا س ہو،لیکن اگر وہ علم سے تہی دا من ہو تو نہ صرف اس کے لیے نقصان کا ادراک نا ممکن ہے بلکہ معا شرے میں عزت کی زند گی بسر کر نا اور بلند مقام حا صل کر نا بھی محال ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ نے پہلی وحی میں فر ائض کی طرف نہیں بلکہ قرأت اور حصولِ علم کی طر ف متوجہ کیا ۔پھر قلم کی قسم اٹھا کرعلم کی اہمیت کو مزید واضح کر دیا ۔جب رسول ۖنے پیغمبرانہ لہجے میں فر مایا علم میرا ہتھیار ہے تو اس صدا سے جہا لت کے ایوانوں میں کہرام مچ گیا ۔علمی ہتھیار کے استعما ل کا یہ اعلا ن عالمِ انسانیت کی شبِ دیجور کو سحر آ شنا کرنے کا اعلا ن تھا۔کیوں کہ انسان اگر علمی ہتھیار سے مسلح نہ ہو تو وہ میدان حیات میں اوہام و خرا فات کے دبیز پر دوں میں چھپ جاتا ہے ۔اور اگر اس کے ہاتھ میں علم کی روشن شمع ہو تو وہ جہا لت کی شب ِدیجور کا ٹتاہو ا تسخیرِ مظا ہر فطرت کا سفر کر نے لگتا ہے۔یہی علمی برتری تھی جس نے انسان کو آغاز پر ہی مسجو دِملا ئک کے ارفع و اعلی مقام پر متمکن کر دیا۔
قرآن و حدیث اور اقوالِ سلف میںجا بجا علم کی اہمیت کو اجا گر کیا گیاہے ۔اللہ تعا لی اہلِ علم کے رفیع درجات کا ذ کر کر تے ہو ئے فر ما تا ہے اللہ تم میں سے ان کے درجات بلند فر ما ئے گا جو ایمان لا ئے اور جن کو علم دیا گیا ۔نبی کریم ۖنے فر ما یا اگرتم جا کر علم کا باب سیکھو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ سو رکعت نفل پڑ ھو ۔ سالم بن جعد اپنے متعلق بیان کرتے ہیں کہ میرے آ قا نے مجھے سو درہم کے عوض آ زاد کیا تو میں نے سو چا کہ کون سا فن سیکھوں، بلا آخر علم کے زیور سے خود کو آراستہ کر لیا ۔ایک سا ل بھی نہ گزرا تھا کہ حا کم شہر میری ملا قات کو آیا لیکن میں نے اسے اپنے پاس آ نے کی اجازت نہ دی۔لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو وصیت کر تے ہو ئے کہا۔اے بیٹے علماء کے پاس بیٹھ اور اپنا زانو ان کے زا نو سے ملا،کیوں کہ اللہ نور حکمت سے دلوں کو اس طرح زندہ کرتا ہے جیسے زمین کو با رش سے سر سبز کر تا ہے ۔ ابو علی ثقفی کہتے ہیں ۔جہالت کی موت سے دل کو زندہ کرنے اور ظلمت کفر سے ایمان کی آنکھ کے روشن ہونے کا نام ایما ن ہے ۔تعلیم وتعلم کی ہدایت ہادی کا ئنات ،معلم انسانیت اور اصحاب صفہ کے استاد سید المر سلین ۖ سے لیں جنھوں نے اللہ تعا لی کی طرف سے عطا شدہ عظیم علمی معجزے ‘قرآن کریم، کے ذریعے اجڈ،گنواراور جاہل قوم کے افکار و نظریات،تہذیب وتمدن اور آئین وقوانین کو یکسر بدل ڈالا۔ جن کو اونٹ چرانے کے سواکوئی سلیقہ نہ تھا۔
انہیں شتر بانی کے مرتبے سے اٹھا کر جہا نبا نی کے مرتبے پر فائز کر دیا ۔علم صرف آگا ہی کا نام نہیں بلکہ یہ تجربے کا مفہوم رکھتا ہے۔علم صرف عبارات کو یاد کر نے کا نام نہیں بلکہ اس کا مدعاحفظ معنی اور اکتشاف حقیقت ہے یعنی علم کسی شے کی حقیقت کوجان لینے کا نام ہے ۔مزید برآں نتیجہ خیزی او رنفع و ضرر کی پہچان کو بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔اسلام میں علم کی قطیعت اورنفع وضررکا ثبوت صرف وحی الہی سے ہو سکتا ہے ۔اور اس کی اتھا رٹی حضور ۖکی ذات گرامی ہے ۔در مصطفی سے ہی علمالوہیت کی معرفت ہوئی۔جو ہمارا مقصود ہے ۔اس لیے حصول علم کو ہر مسلمان مردو زن پر فر یضہ قرار دیتے ہو ئے نبی کریم ۖنے فر ما یا علم حا صل کرنا ہر مر د و زن پر فرض ہے علم کا حصول یقینا نیک مقصدہے اور ہر قوم و ملت میں علم و آگاہی کو شرف حا صل رہا ہے ۔،لیکن اسلامی تصور حیات میں علم کا حصول فر ض کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ ایک ایسا بنیادی مطالبہ ہے۔جو تکمیل ذات کا اہم عنصر ہے۔
Allah
یہی وجہ ہے کہ علم کے چھپانے کو جرم اور اسکی ترویج و اشاعت کو فرض قراردیا گیا ہے ۔،اللہ تعا لی نے فرما یا اور یاد کرو جب اللہ نے ان لوگوں سے پختہ وعدہ لیا جنھیں کتاب دی گئی کہ تم اسے لوگوں کے لیے خوب کھول کر بیان کرنا اور اسے نہ چھپا نا ۔ابن ما جہ کی ایک حدیث میں ہے جس سے علم کی بابت سو ال کیا گیا لیکن اس نے اسے چھپایا تو اللہ قیا مت کے دن اسے آگ کی لگام ڈالے گا۔علم تو ایک دریا ہے جس کے آگے بند باندھنا ایک غیر انسانی حرکت ہے ۔یہ پورے معاشرے کا مشترکہ وصف ہے۔یہ ایک اما نت ہے جسے روکنا بد ترین خیانت ہے ۔یہ جلب زر کا ذریعہ نہیں بلکہ تکمیل ذات کا سبب ہے۔ یہ قا بل فروخت جنس نہیں بلکہ لائق ہدیہ متا ع ہے۔یہ کا رو بار نہیں بلکہ فر یضہ اور پیغمبر انہ منصب ہے ۔اس لیے اللہ کی طرف سے آپ کو اضا فہ علم کی دعا کی تلقین کی گئی۔
یہ دور علمی اعجاز کا دور ہے ۔سائنس و ٹیکنا لو جی کے میدان میں معجزات رو نما ہو رہے ہیں ۔ان حا لات میں علم کی جو یاقوم ہی ترقی کے زینے طے کر سکتی ہے۔لیکن علمی ترقی کے ساتھ ساتھ مقاصد حیات کی تکمیل و ترقی بھی اشد ضروری ہے۔انسان زیور علم سے تو آراستہ ہو لیکن اس سے تعمیر سیرت نہ ہوتو علم کا مقصد فوت ہوجا تا ہے ۔اصحاب علم کے لیے ضروری ہے ۔کہ وہ عمدہ سیرت وکردار کے ما لک ہو ں۔تواضع و انکسا ری کے پیکر ہو ں۔اور انسا نیت کی فلا ح و بہود ان کا مطمع نظرہو ۔تعلیم کا مقصد وہ سیرت سازی ہے۔
جو انسانیت کے لیے مفید ہو۔ وہ علم جس کا اثر انسان کے کردار اور سیرت پر نفع کی بجا ئے نقصان کا با عث ہو ۔ایسے علم سے حضور ۖپنا ہ ما نگا کرتے تھے۔اسلا می نظا م میں ایک مقصد یت ہے۔ اس کے سا منے ایک نصب العین ہے ۔اور اس کا مقصود ایسے افراد تیار کرنا ہے جو اس عظیم مقصد کے ساتھ وابستگی رکھتے ہوں ۔اور اجتماعی طور پر اسلامی ریاست کے اچھے شہری ثا بت ہو سکیں ۔طا لب علم کی کردار سازی کے متعلق امام غزالی احیاء العلوم فرماتے ہیں ،،تعلیم کا مقصد یہی نہیں ہو نا چا ہیے کہ نو جوانوں کے ذہن کی علمی پیاس بجھا دے بلکہ اس کے ساتھ اسے اخلا قی کرداراور اجتما عی زندگی کے اوصاف نکھارنے کا احساس بھی پیدا کرنا چا ہیے ۔علمی درسگاہ اجتماعی اداروں میں بہت مقدس اور اہمیت کا حامل ادارہ ہے کسی معاشرے کے اجتماعی شعور اور انفرادی تشخص کے ارتقا کا انحصار علمی اداروں پر ہی ہو تا ہے۔
یہی نئی نسل ہی پروان چڑ ھتی ہے۔اور قوم کے معمار تیار ہو تے ہیں ۔جن کے ساتھ قوم کا مستقبل وا بستہ ہو تا ہے ۔طا لب علم نظام تعلیم کا مر کزی کر دار ہے۔جس کے گرد اور جس کی خاطر تعلیمی سر گرمیاں رو بہ عمل میں لا ئی جا تی ہیں ۔ بحثیت طالب علم مرد و زن دونوں اہمیت کے حامل ہیں ۔چو نکہ علم تمام انسانوں کی ضرورت ہے ۔اس لیے اسے صرف چند مراعات یافتہ طبقو ںمیں محصور نہیں کیا جا سکتا۔اسلام نے علم کو نہ افراد کا اسیر بنایا ہے اور نہ اوقات کا بلکہ یہ تو گود سے گور کے عرصے تک محیط ہے ۔طالب علم کے ساتھ ایک معلم اور استاد بھی نظام تعلیم میں سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے ۔انبیا کرام کی بعثت کا مقصد ہی تعلیم امت ہے ۔رسول اللہ نے خو د اپنا تعارف بطور معلم کرواتے ہو ئے فرمایامیں معلم بنا کر بھجا گیا ہوںاور علما کو انبیاکا وارث قرار دیتے ہو ئے فر ما یااسلام کا نظام تعلیم ایک ایسے معلم کا وضع کردہ ہے جسے نہ صرف اس نے وضع کیا بلکہ عملی نفاذ بھی فر ما یا۔آپ ۖ نے تعلیم کے لیے ایک مضبوط ڈھا نچہ فراہم کیا استاد صرف چند علوم کا ماہر یا محقق نہیں ہو تا بلکہ طلبہ کا راہنما اور مر بی بھی ہو تاہے ۔وہ اپنی وسعت علمی اور اعلی کردار سے طلبہ کے کردار کی تعمیر کر تا ہے۔
اس کے لیے اپنے شعبہ علم میں مہارت کے ساتھ ساتھ علم کی بلندی اور اخلاق کی پختگی بھی ضروری ہے ۔علم و فنی ماہرین کی قدروقیمت مسلم ہے ۔لیکن ان کا با کردار ہو نا اور بھی ضروری ہے ۔والدین اپنی متاع عزیز ان کے سپرد کر کے انہیں اپنے وجود پر ترجیح دیتے ہیں اس کا احساس بھی ضروری ہے اور قوم کے مستقبل کو نا قابل اعتماد ہاتھ میں نہیں دینا چا ہیے ۔کیوں کے ایسے علم و دا نش سے خیرکی امید نہیں کی جا سکتی ۔ آ ج انسانی زبوں حالی اور نار سائی کا سبب یہ نہیںہے کہ انسان علم و سائنسی میدان میں پیچھے رہ گیا ہے ۔بلکہ اصل سبب انسانیت اور انسانی اقدار کا فقدان ہے ۔نظا م تعلیم کے مرکزی کردار یعنی استاد کے لیے ضروری ہے کہ اس کی شخصیت جاذب ہو،کردار مثالی ہو ۔علمی استعداد کا حامل ہو ،انداز تدریس دلنشیں ہو ،طالب علم میں تحقیق و جستجوکی لگن پیدا کرے اور عمد ہ کردار اور اعلی اخلاق سے طلبہ کو متاثر کرے۔نوجوان در اصل قوم کا سر ما یہ ہو تے ہیں ۔ان کے کردار کے تنا سب سے ہی قوموں کے عروج و زوال کا گراف تیا ر ہو تاہے ۔آ ج کے دور میں مثالی اداروں کی قلت ہے ۔علم کے نام پر کاروبار،تربیت کی آڑ میںبغاوت اور تہذ یب کے پردہ میں مادرپدر آزادی کا جو شور بپا ہے اس نے نوجوان نسل کے ذہنوں کو کرب و اضطراب کا شکار کررکھا جاتا ہے ۔عصر حاضر میں اگر مختلف ہائے نظام تعلیم کا جا ئزہ لیا جائے تو ان میں سے بیشتر دو انتہائوں کا شکار ہیں۔
کہیں مجر د رو حا نیت مدار تعلیم ہے ۔اور مادی تقاضوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے تو کہیں مادی تقاضے اور جسمانی آسودگی مرکزی نقطہ ہے ۔جس سے روح مضحمل ہو جا تی ہے ۔لیکن اسلامی نظام تعلیم میںدلکش توازن اور حسن اعتدال ہے ۔اور پھراسلام کے وسیع تصور سائنسی علوم اور دیگر فنون بھی شامل ہیں ۔ملکی و قومی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہو ئے تعلیم کے تمام شعبہ جات کو اہمیت حاصل ہے ۔لیکن مقصود دکھی انسانیت کی خدمت ہو ۔کوئی شخص کسی بھی شعبہ زیست سے وابستہ ہو ،بحثیت انسان اس کی حیثیت متا ثر نہ ہو گی ۔ڈاکٹر ہو یا انجینئر ،استاد ہو یا شاگرد ،آفسرہو یا ما تحت ،آجرہو یا اجیر ،سب اپنے دائرہ عمل میں مصروف ہوں گے ۔لیکن ان سب کی مشترکہ اساس انسان ہی ہے ۔اس لیے لا ئق اعتمادماہر فن کی عظمت کے باوجودبرتر انسان کی قدرو قیمت زیادہ ہو گی ایسے انسان کی تعمیرو تشکیل کے لیے تعلیم کا سر عنوان قرآن کو بناناہو گا ایسے علم و آگاہی کی ابتدا ہو تو راز کا ئنات کھلنے لگتے ہیں ،عناصر پر حکمرانی نصیب ہو تی ہے ۔ اور انسان کو انسانیت کی معراج ارزانی ہو تی ہے ۔مسلمان بچوں کی تعلیم کا آغاز اس کی تلا وت اور مطا لعہ سے ہو تا ہے کہ حیات مستعار کی خشت اول قرآن کے سایہ میں استوار ہو۔