تحریر :میاں وقاص ظہیر پنجاب کے صوبائی دارلحکومت کی این اے 122 کی نشست نے حکومتی حلقوں میں بوچال برپا کردیا ہے ،سردار ایاز صادق نے الیکشن ٹربیونل کے فیصلہ کے بعد سینے چوڑا کرکے سپریم کورٹ جانے کے بجائے عوامی عدالت سے رجوع کرنے کیلئے میدان کا انتخاب کیا ہے ، حلقہ میں اس وقت حالات یہ ہیں کہ جوں جوں 11اکتوبر کا دن قریب آتا جارہا ہے ،دونوں بڑی جماعتوں ن لیگ اور تحریک انصاف میں بے چینی بڑھ رہی ہے ،دونوں نے انتخاب کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ،ن لیگ کے وزیراعظم سے لیکر وزیراعلیٰ پنجاب تک ڈائریکٹ تو نہیں لیکن ان ڈائریکٹ طریقوں سے نشست جیتے کے داؤ پیچ لڑائے جارہے ہیں ،عمران خان بھی اپنے امیدوار کیلئے حلقے کے عوام سے ووٹ مانگتے نظر آرہے ہیں ،ن لیگیوں کا دعویٰ ہے کہ ہم نے عمران خان کو گراس روٹ لیول یعنی یونین کونسل کی سطح پر ووٹ مانگنے پر مجبو رکردیا ،وہ اپنے اس اقدامات پر نہ صرف اترا رہے ہیں۔
بلکہ ان کے وزیر مشیر اسے بہت بڑی فتح سمجھ رہے ہیں ،وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اپنے تمام نمائندوں کو حکم جاری کردیا ہے کہ حلقہ این اے 122میں جاکر لوگوں کے مسائل سنیں او رانہیں فوری طور پر حل کریں ،کاش ! شریف برادران اپنے ساتھ نااہل مشیر کی فوج ظفر موج نہ رکھتے ،کاش ! شریف بردران میٹرو بس ،سستی روٹی سکیم ،لیپ ٹاپ سکیم ،یوتھ لون سکیم اور ان طرح کی جزوقتی سکیموں جن کا ذکر فقیر !اپنی درجنوں تحریروں میں کرچکا ہے ،جس پر وقت اور قوم کا بے دریغ پیسہ ضائع نہ ہوتا، ملک میں صنعتیں لگانے پر کام ہوتا ،قابل تجدید توانائی کے سیکٹرز کو ترقی دی جاتی ،کسان کے بنیادی مسائل اس کی گھر کی دہلیز ہر حل کئے جاتے انہیں مہنگی ڈی آئی پی اور یوریاکھاد خریدنے کی بجائے گاؤں میں درجہ بندی کرکے انہیں ڈی آئی پی اور یوریا کے پلانٹ لگا کردیئے جاتے۔
Farmer
ہر کسان کے اراضی کا شفاف طریقے سے سروے کیا جاتا اور اس سروے کے مطابق ہر کسان کو کھاد کا کوٹہ دیا جاتا ،ڈیزل پر خاص رعایت ملتی ،ان کی اجناس منڈیوں تک پہنچانے کیلئے خصوصی ٹرانسپورٹ چلائی جاتی ،ان کے بچوں کو کیلئے سکولوں ،کالجوں میں خصوصی نشستیں رکھی جاتیں ،توآج یہ بھی زراعت کے جدید طریقوں سے آشنا ہوتے ،اس سسٹم میں جڑے لوگوں کیلئے روزگار کے زیادہ زیادہ مواقع پیدا ہوتے ،زرعی اجناس منڈیوں میں سستی فروخت ہوتی ،کو ئی قبضہ گروپ ،مافیا کا کارندہ سونا اگلتی زمینوں پر قبضے کرکے یا مجبور افراد سے اونے پونے داموں خرید پر اس پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں تعمیر نہ کرتا ،ان زمین پر اگنے والے درختوں کو بے دردی سے نہ کاٹا جاتا ،ملک میں پانی کے کم استعمال سے بحران پیدا نہ ہوتا ،مون سون کے موسم میں بارشوں کے پانی کو سیلاب کی تباہی کیلئے استعمال کے بجائے ہم اسے زراعت اور توانائی کیلئے قابل استعمال بناتے۔
اس سے نہ صرف ہم لاکھوں لوگوں کوتباہی سے بچاتے بلکہ ہمارے بہت سے پیارے ان ریلے میں بہہ کر اپنی جانیں نہ گنواتے ،کاش !شریف بردران کو کوئی یہ مشورہ دیتا کہ جناب! جزوقتی منصوبے وقتی طور آپکی ”بلے بلے ” تو کروا سکتے ہیں لیکن اقتصادی ومعاشی ترقی میں کوئی خاص کردار ادانہیں کرسکتے ،آپ نوجوانوں کی قرضوں کی نام پر خیرات دینے کے بجائے ان کے روز گار کیلئے دوسرے ممالک سے سٹریٹجک پارٹنر شپ پر توجہ دیں ،پھر کس طرح ہوسکتا ہے کہ ہمارے انجینئر ز اور پڑھے لکھے نوجوان انتہا پسندگروپوں کے ہاتھوں چند روٹی کے ٹکروں کی خاطر خود کوبیچتے ،پیٹ میں بھوک اسلام کے بھی سارے ارکان بھلا دیتی ہے ، کاش! کوئی آپ کو مشورہ دیتا کہ بیرون ممالک ”جمعہ جنج نال ”اپنے لشکر کو بیرون ممالک کے دورے پر لیجانے اوران پر اٹھنے والے اخراجات کو ملک میں رہ کر غریبوں کی فلاح وبہبود پر خرچ کرتے۔
Facilities
،انہیں صاف پانی ،علاج معالجہ اور زندگی کی بنیادی سہولیات دیتے تو آج آپ کو نہ کسی کسان پیکج کا اعلان کرنا پڑتا ، رمضان بازاروں میں سستا بازار لگانے کیلئے اقدامات کرنے پڑتے ،اور نہ ہی 2ہزار پولیس اہلکاروں کی سکیورٹی حصار میں اندرون ملک سفر کرناپڑتا ،عدالتوں میں فیصلے حق سچ پر دیئے جاتے،پولیس عوام کی محافظ ہوتی ،پٹواری فرد اوررجسٹری کے حصول کیلئے بلیک میل نہ کرتا،انتظامیہ امور کے تمام ادارے اپنے آئینی دائروں میں کام کرتے ،بیوروکریسی خود کوریاست کا بدمعاش نہ سمجھتی اوراسٹبلشمنٹ سے ملکر کر حکومت کیخلاف سازشیں نہ کرتی تو اداروں میں تصادم کی فضاء نہ پیدا ہوتی،پائلٹس کی تنظیم پالیا ،ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن ،کسان تنظیمیں ،اساتذہ ،ٹرانسپورٹرز معذور اور عام شہری اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر پلے کارڈ اور بینرز اٹھائے احتجاج پر مجبور نہ ہوتے، فوج کو ملک کے اندورنی اور بیرونی معاملات میں دخل دینے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
پیپلزپارٹی کی بات اس لئے نہیں کرتا کہ اس پارٹی نے جو بویا تھا وہ فصل تیار ہوچکی ہے اور اسے مرحلہ وار کاٹ رہے ہیں ،آنے والے وقتوں میں پیپلزپارٹی مزید سمٹتی نظر آرہی ہے،عمران خان کی تحریک انصاف کو پارٹی بننے میں وقت لگے گا ،آپ تو اقتدار کی تیسری باری لے رہے ہیں ،آج صرف این اے 122میں دوبارہ الیکشن کی باری آئی ہے تو آپ کی سانسیں ، ہاتھ اورپاؤں پھولے ہوئے ہیں ، ہار جیت کا فیصلہ تو 11اکتوبر کو عوام نے کرنا ہے ،کاش ! شریف برادران سچی نیت کیساتھ عوام کے دکھوں کا مداوا کرتے تو انہیں ووٹ کیلئے بھیک نہ مانگنا پڑتی،حلقہ میں رہائش پذیر ریلوے ملازمین کو ووٹوں کیلئے ڈر ادھمکانہ جاتا ،کچی آبادی کے مکینوں کومکانات کے صفایے کی دھمکیاں نہ دینا پڑتی ،ہمارے عوام بھی ابھی مکمل میچور نہیں ہوئے ،ہوں بھی کیسے جب انہیں بنیادی سہولیات سے ہی محروم رکھا جائے گا تو وہ کیسے آپ کی عزت کریں گے اور کس طرح آپ کے بارے میں نیک خیالات رکھیں گے ،کبھی نہیں ،عوام کے پاس این اے 122میں ووٹ سے احتساب کا آسان موقع ایک بار بھر آن پہنچا ہے ،ن لیگ یا تحریک انصاف فیصلہ آپ کے پاس ہے۔