اس عالمِ فانی میں وہ انساں نہیں دیکھا جس نے کبھی کوئی غمِ دوراں نہیں دیکھا مسلم سے سرِ رہ کہیں مندر کے پجاری جو دل میں نہاں تیرے وہ رحماں نہیں دیکھا یوں پوچھتے ہیں تخلیقِ صلصال کا مقصد جیسے کبھی اس عبد نے قرآں نہیں دیکھا ساحل کے صدف چیں دیکھتے ہیں یوں گھٹا کو گویا کہ برستا آبِ نیساں نہیں دیکھا صد حیف تری اس نگۂ شوق پہ آنس جس نے گُلوں میں جلوۂ یزداں نہیں دیکھا