تحریر : مسز جمشید خاکوانی پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے لندن میں رائل یونایٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹفار ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز سے خطاب کا یہ حصہ انتہائی قابل توجہ ہے کہ ” اسلام آباد میں بعض لوگ داعش کی اطاعت کرنا چاہتے ہیں لہذا یہ خطرناک صورت حال ہے اس دہشت گرد گروپ سے نمٹنا القائدہ سے بڑا چیلنج بن گیا ہے ”افغان فوج کے سربراہ جنرل شیر محمد کریمی داعش کے خطرے سے آگاہ کر چکے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کو مشترکہ دشمن کا سامنا ہے داعش کی موجودگی کا سب سے پہلا اعلان تین ماہ قبل 20 اپریل 2015 افغانستان میں خودکش دھماکے کے بعد سامنے آیا تھا اس دھماکے میں بچوں سمیت 37افراد جاں بحق اور 115 افراد زخمی ہو گئے تھے ۔افغان طالبان نے اسے شیطانی فعل قرار دیا تھا جبکہ داعش نے اس کی زمہ داری قبول کی تھی۔
افغان سر زمین پر ہونے والے اس خودکش دھماکے سے داعش نے افغانستان،افغان طالبان اور پاکستان کے مشترکہ دشمن کی حیثیت سے دو ٹوک انداز میں انٹری دی تھی اور اب آرمی چیف جنرل راحیل کے بیان نے درحقیقت اہل پاکستان اور خصوصاًاسلام آباد کو ایک نئے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیئے گویا ریڈ الرٹ جاری کر دیا ہے ۔داعش کی زیادہ طاقت شام اور عراق کے خلاف استعمال ہو رہی ہے جبکہ شام کی سرحد کے ساتھ اسرائیل بھی واقع ہے مگر ابھی تک داعش کے جنگجوئوں نے اسرائیل کا رخ نہیں کیا ۔داعش کے جنگجو اسلامی مملکتوں کے درمیان میں بیٹھ کر ایک طرف شام اور عراق میں آگ اور خون کا کھیل گرم کیئے ہوئے ہیں اور دوسری طرف قدرے طاقتور اسلامی ملکوںسعودی عرب اور ترکی کی سرحد پر بھی موجود ہیں۔
بلکہ وقتا فوقتا ان ممالک کے اندر بھی دہشت گرد کاروائیاں کرتے رہتے ہیں آرمی چیف کے بیان نے اس خطرے کی واضح نشاندہی کر دی ہے کہ داعش کے جنگجو اسلا آباد میں دستک دے رہے ہیں ساتھ ہی فوج کے سربراہ نے قوم کو قابل اعتماد پیغام بھی دیا ہے کہ پاکستان پر داعش کا سامنا بھی نہیں پڑنے دیا جائے گا جنرل راحیل شریف نے جس خطرے کا اشارہ کیا ہے اس کا تجزیہ کرنا بہت ضروری ہے کہ پاکستان کے لیئے داعش کے کتنے خطرات ہیں اور ان خطرات سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے۔
Maulana Abdul Aziz
اس سلسلے میں لال مسجد کے مولوی عبدلعزیز کا کردار کوئی ڈھکا چھپا نہیں حال ہی میں غازی عبدلرشید کے بیٹوں کی گرفتاری اور اسلحہ بارود اور فوجی وردیوں کا برامد ہونا پوری کہانی بیان کرتا ہے لیکن نہ جانے انہیں کس لیئے ڈھیل دی جا رہی ہے لال مسجد سے جڑے واقعات ایسے نہیں ہیں کہ انہیں داعش سے نہ جوڑا جا سکے ۔یہ پہلو زیر نظر رہنا چاہیئے کہ پاکستان پہلے ہی حالت جنگ میں ہے اور غیر ملکی جنگجو پہلے ہی پاکستانی سرحدوں کے اندر پاکستانی افواج سے لڑ رہے ہیں بے چہرہ اور بے نام دشمن آئے روز پاکستان کے اندر معصوم لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
ان دہشت گردانہ کاروائیوں کی کبھی ایک تو کبھی دوسرا گروپ زمہ داری قبول کر لیتا ہے حکومت اب تک کسی ایک بھی کاروائی کے پیچھے موجود کسی تنظیم کو بے نقاب کرنے میں ناکام رہی ہے ایسے میں دہشتگردی کے کسی واقعے کی زمہ داری کو کوئی تنظیم داعش کے نام سے قبول کرتی ہے تو اس دعوے کی تصدیق کے ذرائع موجود نہیں ۔مگر آرمی چیف کے بیان نے صورت حال کو واضح کر دیا ہے کہ داعش پاکستان کے ارد گرد پنجے گاڑ چکی ہے اس لیئے اسلام آباد میں بعض لوگ داعش کی اطاعت کرنا چاہتے ہیں ۔اہم سوال یہ ہے کہ اسلام آباد میں کون سے ایسے لوگ ہیں جو داعش کی اطاعت کے لیئے بے قرار ہیں اسلام آباد کے ایک معتبر ادارے نے اپنی حالیہ رپورٹ میں یہ سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے محرکات بدل رہے ہیں۔
سیکورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو مساجد ،مزاروں ،امامبارگاہوں ،بازاروں ، گرجا گھروں،اسکولوں ،تعلیمی اداروں کالجوں ،کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بدلتے پہلوئوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ابھی کچھ کرنا باقی ہے عسکری سطع پر کام جاری ہے تاہم نظریاتی سطع پر کام کرنا ابھی باقی ہے اس کے علاوہ تعلیم ،صحت ، روزگار وہ چیزیں ہیں جس کو ریاست کے ہر فرد کے لیئے یقینی بنا کر دہشت گردی کو شکست دی جا سکتی ہے۔
Zaid Hamid
ادھر سعودی عرب میں گرفتار دفاعی تجیہ نگار سید زید حامدجن کی موت کی خبر اڑا دی گئی تھی اچانک ہی ڈرامائی طور پر واپس آگئے ہیں انہوں نے اپنے پکڑے جانے کی وجوہات پہ روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ انکی گرفتاری میں ایک پاکستان دشمن خفیہ ایجنسی کا کردار ہے جب وہ سعودیہ پہنچے ان کا اہلکار پہلے ہی سے وہاں موجود تھا اسنے انہیں باور کرایا یہ ایرانی جاسوس ہیں ۔اس ضمن میں انہیں ایرانی صدر احمدی نژاد کے ساتھ دورون کی تفصیلات شواہد کے طور پر پیش کی گئیں نجی ٹی وی چینل کا وہ پروگرام جس میں انہوں نے پاکستانی فوجی دستے یمن بھیجنے کی مخالفت کی تھی وہ بھی شہادت کے طور پر پیش کی گئی اور یہ سب میرے خلاف جال تیار کیا گیا کہ میں ایرانی ایجنٹ ہوں الزامات سنجیدہ تھے اور سعودی حکام کو لازمی تحقیقات کرنی تھیں انہوں نے بتایا جب وہ سعودی عرب پہنچے تو را کے ایجنٹ پہلے ہی وہاں موجود تھے۔
انہوں نے سعودی حکام کو میری موجودگی سے آگاہ کیا اور پھر سعودی حکام نے تحقیقات شروع کر دیں تحقیقات میں تمام الزامات جھوٹے نکلے بات یہیں تک محدود نہیں بلکہ بھارتی حکومت نے مطالبہ کیا مجھے ان کے حوالے کیا جائے اس پر سعودی حکام خبردار ہو گئے کہ کچھ گڑ بڑ ہے اگر میں واقعی ایرانی ایجنٹ تھا تو بھارت کو اتنی دلچسپی کیوں کہ مجھے ان کے حوالے کیا جائے ۔زید حامد نے بتایا کہ انکی رہائی میں انکی اہلیہ کا کردار اس نے انہیں یقین دلایا کہ ہم محب الوطن پاکستانی ہیں امہ سے پیار کرنے والے ۔ہم ایرانی جاسوس نہیں !