سبی (محمد طاہر عباس ) حکومت کے تعلیمی ایمر جنسی کے بلند وبانگ دعوے صرف دعوے ہی رہ گئے بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر سبی کا تاریخی و قدیمی گورنمنٹ بوائیز ماڈل ہائی سکول حکومتی عدم توجہی کے باعث کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگا سکول کی عمارت انتہائی مخدوش کسی بھی وقت کوئی سانحہ رونما ہونے کااندیشہ سکول میں 30 سے زائد اساتذہ کی آسامیاں خالی طلباء کا مستقبل تاریک تفصیلات کیمطابق شہر کے وسط میںگورنمنٹ بوائیز ماڈل ہائی سکول جو کہ 1898سے قائم ہے مگر افسوس کہ اس وقت سکول کا پرائمری حصہ انتہائی مخدوش حالت میں ہے سکو ل بس ٹوٹ پھوٹ کا شکار کلاس روم کی چھتیں گرنے کے قریب جبکہ دیواریں ،کھڑکیاں ، روشندان ، فرش، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جس کے باعث کسی بھی وقت کوئی سانحہ رونما ہوسکتا ہے طلبا کیلئے سکول میں ڈیسک تک موجود نہیں۔
طلباء زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں سکول میں طلباء کیلئے پینے کا صاف پانی تک موجود نہیں حکومت کی جانب سے تعلیمی ایمر جنسی کے بلند و بانگ دعوے تو کر رکھے ہیں مگر اسے عملی جامہ پہنانے والا کوئی نہیں گورنمنٹ بوائیز ماڈل ہائی سکول قدیم اور ماڈل ہونے کے ساتھ ساتھ سکول کو یہ اعزا ز بھی حاصل ہے کہ سکول کی صد سالہ تقریب میں صدر پاکستان محمد رفیق تارڑ نے بھی شرکت کی جبکہ اس سکول سے بہت سی عظیم شخصیات تعلیم حاصل کرکے اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں مگر افسوس کہ سکول کی حالت اس وقت انتہائی خراب ہے کلاس روم کی چھتیں گرنے کو ہیں جو کہ طلبا ء کیلئے ہر وقت خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں گورنمنٹ بوائیز ماڈل ہائی سکول میںتقریبا ڈیڑھ ہزار طلباء زیر تعلیم ہیں مگر انہیں تعلیم دینے کیلئے اساتذہ کی 30 سے زائد آسامیاں عرصہ دراز سے خالی پڑی ہیں جو کہ ایک سوالیہ نشان ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نے جس تعلیمی ایمر جنسی کا اعلان کر رکھا ہے اسے عملی جامہ پہناتے ہوئے نہ صرف ماڈل سکول بلکہ تمام سرکاری سکولوں کی جانب بھرپور توجہ دے تاکہ طلباء پرسکون ماحو ل میں تعلیم حاصل کرسکیں۔