تحریر: ممتاز حیدر حکومت وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو صحت، تعلیم، روزگار سمیت تمام سہولیات مہیا کرے ۔ملکوں میں ایسا ہی ہوتا ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں،عوام کے ووٹوں سے اقتدار کی کرسی تک پہنچنے والے عوام کو بھول ہی جاتے ہیں۔پنجاب میں گزشتہ کئی ماہ سے یہ خبریں باز گشت کر رہی تھیں کہ پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں مریض خوار ہو رہے ہیں کوئی ان کا پرسان حال نہیں،ڈاکٹر جو مسیحا ہوتے ہیں وہ حکومتی پالیسیوں کے خلاف آئے روز ہڑتالیں کرتے ہیں۔ ایمرجنسی بھی بند اور ہسپتال میں دوائیوں کا ملنا تو انتہائی محال ہے۔سنا تو یہ تھا لیکن ذاتی مشاہدہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں جا کر ہوا،جہاں حکومت نے مریضوں سے چندہ مانگنا شروع کر دیا ہے۔
پرچی فیس تو ایک روپیہ ہے لیکن پرچی لیتے وقت آپ کو ڈبے میں پنجاب حکومت کو نذرانہ دینا ہو گا جو پیسے ڈبے میں ڈالیں گے اس کا بقایا نہیں ملے گا ،ڈاکٹر کے پاس جائیں تو ایمرجنسی میں بھی اتنی لمبی لائنیں کہ دو سے تین گھنٹے ڈاکٹر تک پہنچنے میں لگ جاتے ہیں ۔تین گھنٹے لائن میں لگنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ابھی چائے کا وقفہ ہے اور اسکا وقت ایک گھنٹے کا ہوتا ہے ایسے میں مریض پر کیا گزرتی ہے کاش یہ حکومتی کارندے جانتے۔وزیر اعلیٰ پنجاب جو اپنے آپ کو خادم اعلیٰ کہلواتے ہیں وہ تو اپنا علاج انگلینڈ سے کرواتے ہیں۔وزراء سے بھی کوئی وزیر پنجاب کے کسی ہسپتال سے علاج نہیں کرواتا بلکہ پروائیویٹ یا بیرون ممالک کوترجیح دی جاتی ہے۔
ایسے میں سرکاری ہسپتالوں کی حالت کیسے بہتر ہو گی۔جب لاہور شہر کے سرکاری ہسپتالوں میں ادویات نہیں،ٹیسٹوں کے نام پر پیسے بٹورے جا رہے ہیں ،ڈاکٹر ٹائم پر مریض کو نہیں دیکھتے تو باقی پنجاب کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔گزشتہ روز خبر ملی کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے اڑھائی گھنٹے تک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال قصور کا غیر اعلانیہ اچانک دورہ کیا۔میں سوچ رہا تھا کہ غیر اعلانیہ دورے کا دیکھتے ہیں ،خبر تو کسی نہ کسی ذریعے سے مل ہی چکی ہو گی اور ایسا ہی ہوا کہ دورہ غیر اعلانیہ نہ رہا بلکہ ڈی سی او قصور نے میڈیا سمیت ہسپتال انتظامیہ کو بھی آگاہ کر دیا جس پر وزیر اعلیٰ نے ڈ ی سی او کی سرزنش بھی کی۔
Shahbaz Sharif
وزیراعلیٰ بغیر پروٹوکول کے عام کوچ میں سفر کر کے ہسپتال پہنچے اور وہاں مریضوں کو دی جانے والی طبی سہولیات کا جائزہ لیا۔ وزیراعلیٰ ہسپتال کے مختلف وارڈز میں گئے، مریضوں کی عیادت کی اور ان سے علاج معالجہ کے بارے میں دریافت کیا۔وزیراعلیٰ نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال قصور کے دورہ کے موقع پر ہسپتال کے وارڈز میں صفائی کی ناقص صورتحال اور ادویات کی عدم دستیابی کی شکایات کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ متعلقہ حکام کی باز پرس ہوگی اور غفلت کے ذمہ داروں کو سزا ملے گی۔ وزیراعلیٰ نے ہسپتال کے ٹوائلٹس میں گندگی اور پانی و لائٹس کی عدم دستیابی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہسپتال میں صفائی کا انتظام ہے اورنہ ٹوائلٹس میں پانی۔ مریضوں کیلئے بنیادی سہولتیں میسر نہ ہونا ہسپتال انتظامیہ اور محکمہ صحت کے حکام کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
وزیراعلیٰ نے ہسپتال میں ادویات کی عدم دستیابی اور باہر سے ادویات منگوانے کی شکایات پر ایکشن لیتے ہوئے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال قصور میں منگوائی جانے والی اور استعمال ہونے والی ادویات کے ریکارڈ کی مکمل چھان بین کا حکم دیا اور کہا کہ اس ضمن میں غفلت کے ذمہ دار سزا سے بچ نہیں پائیںگے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی حالت زار دیکھ کر افسوس ہوا ہے، متعلقہ ادارے اور انتظامیہ ذمہ داری کا ثبوت دیتے تو ہسپتال کی ایسی حالت نہ ہوتی۔ عوام کو طبی سہولتوں کی فراہمی کیلئے دیئے گئے وسائل کسی صورت ضائع نہیں ہونے دیں گے۔
وزیراعلیٰ نے ڈی سی او، ایم ایس ہسپتال اور ای ڈی او ہیلتھ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ہسپتال کی حالت زار دیکھ کر آپ لوگوں کو شرم آنی چاہیے۔ اگر آپ کا کوئی عزیز بیمار ہوتو کیا اس ہسپتال میں علاج کرانا پسند کریں گے۔ مریضوں اور ان کے اہل خانہ نے وزیراعلیٰ شہبازشریف سے شکایات کرتے ہوئے کہا کہ ہسپتال میں بعض ادویات باہر سے منگوائی جاتی ہیں۔ جس پر وزیراعلیٰ نے ڈی سی او کو حکم دیا کہ جن مریضوں نے باہر سے ادویات خرید ی ہیں آپ انہیں فوری طورپر رقم واپس کریں۔ وزیراعلیٰ نے وارڈز کے بستروں میں گندی اورآلودہ چادروںپر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا۔
Cleaning Arrangements
شہبازشریف نے اپنے خفیہ دورے کی میڈیا اور سرکاری عملہ کو اطلاع کرنے پر ڈی سی او قصور کی سخت سرزنش کی اور میڈیا کے نمائندوں کو ان کے کیمروں سمیت ہسپتال کے باہر روک دیا اور ممبران اسمبلی ملک رشید، میاں وسیم اختر شیخ، حاجی نعیم صفدر انصاری یعقوب ندیم سیٹھی ودیگر کے ہمراہ ہسپتال کا تفصیلی دورہ کیا انہوں نے ہسپتال کی تمام وراڈوں اور باتھ روموں ساتھ ساتھ ہسپتال کے کونے کونے کا جائز لیا اور صفائی کے انتہائی ناقص انتظامات پر سخت برہم ہوئے اور ایم ایس، ای ڈی او ہیلتھ اور ڈی سی اوکی سخت سرزنش کی۔ اْنہوں نے 2 دو اعلیٰ افسران سمیت مقامی منتخب نمائند گان پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جو جلد از جلد کوتاہی کے مرتکب افسران کا تعین کرے گی۔کاش شہباز شریف قصور جانے سے پہلے گنگا رام چلے جاتے وہاں جا کر دیکھتے کہ مریضوں کے ساتھ کیسے ظلم کیا جا رہا ہے۔
حقیقت میںحکومت عوام کو تعلیم صحت اور روز گار کی بنیادی سہولتیں دینے میں ناکام ہوگئی ہے ۔سرکاری ہسپتالوں میں غریب کو ڈسپرین کی گولی نہیں ملتی جبکہ وزیر وں اور مشیروں کے بیرون ملک علاج پر قومی خزانے سے لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں ۔ لاکھوں کروڑوں خرچ کرکے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبر بننے والے دانت درد کا علاج بھی سرکاری خزانے سے کرواتے ہیں ۔حکومتی نااہلی کی وجہ سے پرائیویٹ تعلیمی اور صحت کے اداروں میں عام آدمی کا استحصال ہورہا ہے ۔حکومت ڈنگ ٹپائو پالیسی پر عمل پیرا ہے اور کسی بھی شعبہ میں مستقل اور دیر پاانتظامات نہیں کررہی جس کی وجہ سے عام آدمی مایوسی اور محرومی کا شکار ہے ۔ شہریوں کو تعلیم صحت اور روزگار سمیت بنیادی سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی اوالین ذمہ داری ہوتی ہے ،لیکن ہمارے ہاں کسی بھی حکومت نے اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے عام آدمی تعلیم صحت اور روزگار کے مسائل سے دوچار ہے ،امیر اور غریب کیلئے الگ الگ قوانین ہیں۔
Quality of Life
امیروں کو زندگی کی تمام آسائشیں حاصل ہیں جبکہ غریب بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کیلئے مارا مارا پھرتا ہے لیکن اس کی آہ و فریاد پر کوئی کان نہیں دھرتا ۔ دوہرے معیار زندگی کی وجہ سے امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے اور بجاطور پر عام آدمی اپنی محرومیوں کا ذمہ دار مقتدر طبقہ کو سمجھتا ہے ، شاہانہ زندگی گزارنے والے وزیروں مشیروں کاتو قومی خزانے سے علاج ہوتا ہے جبکہ وہ لوگ جو دووقت کے کھانے کیلئے پریشان رہتے ہیں ان کیلئے علاج کی سہولتیں فراہم کرنے کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا ۔حکومت کو چاہئے کہ پنجاب کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں کم از کم ادویات تو فراہم کی جائیں۔