تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال محرم الحرام کا ماہ مبارک شروع ہو چکا ہے اور اس ماہ سے سنِ ہجری کا بھی آغاز ہوتا ہے، مسلمانوں کے نئے سال کا آغاز نواسہ رسولۖ حضرت امام حسین اور آپ کے 72 ساتھیوں کی یاد سے ہوتا ہے، اگر دیکھا جائے تو اس کی یاد کی وجہ سے ہمارے نئے اسلامی سال کا آغاز عبادات، نوافل اور روزے رکھتے ہوئے ہوتا ہے، ہم لہو و لب میں پڑنے کی بجائے یکم محرم الحرام کو ہی روزہ رکھتے ہیں کہ اس دن روزہ رکھنے کا بہت ثواب ہے۔
10محرم الحرام یعنی عاشورہ کے دن تک روزے رکھنے کو باعث برکت سمجھتے ہیں تو یوں ہمارے نئے اسلامی سال کا آغاز اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کو پکارتے ہوئے ہوتا ہے، حضرت امام حسین جن کی شہادت کے باعث دین اسلام کی سربلندی ہوئی ، رسول اکرمۖ کی پیاری بیٹی حضرت فاطمة الزاہرہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دوسرے بیٹے تھے ، ان کے بڑے بھائی امام حسن تھے اور اللہ تعالیٰ نے دونوں بھائیوں کو “جوانان جنت”کا یعنی جنت کے جوانوں کے سردار کا خطاب دیا ہے، حضرت امام حسین 5شعبان 3ہجری کو پیدا ہوئے، رسول اللہۖ نے آپ کا نام حسین رکھا تھا اور مینڈے کی قربانی کے ساتھ عقیقہ کیا ، آپۖ کو اپنے نواسے سے اتنی محبت تھی کہ آپ نے فرمایا کہ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔
حضرت امام حسین نے اپنی زندگی میں اپنے ناناحضرت محمدۖ کے دین کی پیروی اور سربلندی میں گزاری اور 60ہجری میں امیر معاویہ کی رحلت کے بعد جب ان کے فاسق و فاجر بیٹے یزید نے اسلامی حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو آپ ۖ نے اس کی بیعت کرنے سے اس لئے انکار کر دیا کہ وہ مسلمانوں کا خلیفہ بننے کا اہل نہیں حضرت امام حسین مکہ میں رہائش پذیر تھے اور کوفہ کے لوگوں نے آپ کو خط لکھے کہ آپ یہاں آئیں اور خلافت سنبھالیں ہم آپ کا ساتھ دینگے۔
حضرت امام حسین اپنے اہل و عیال اور بہتر ساتھیوں کے ہمراہ جب کوفہ پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے آپ کا ساتھ نہ دیا اور یزید نے ان بے سروسامان بہتر افراد کے سامنے اپنے 20ہزار افراد کی مسلح فوج کھڑی کر دی اور کہلوایا کہ یا تو آپ میری بیعت کریں یا پھر واپس چلے جائیں، حضرت امام حسین نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا یزید کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا اور جنگ کے لئے تیار ہو گئے۔
Hazrat Imam Hussain
اس وقت یزید کی سامنے جھکنے کا مطلب یہ تھا کہ ظلم و بربریت اور فاسق و فاجر حکمران کو تسلیم کر لیں جو کہ اسلام کے اصولوں کے منافی ہے ،یزید اور اس کی فوج نے آپ کے اہل بیعت کا پانی بند کر دیا، گرمیوں کی شدت اور دریا ئے فرات کا کنارہ لیکن آپ کے ساتھیوں کو دریا سے ایک چلو بھر پانی بھی پینے کی اجازت نہ تھی ، بچے اور بڑے پیاس سے بلک اٹھے۔ آپ کے سب سے چھوٹے بیٹے علی اصغر کی عمر 6ماہ تھی آپ انہیں پانی پلانے لگے تو دشمن کی جانب سے ایک تیر آیا اور ننھے علی اصغر کی شہہ رگ میں پیوست ہو گیا اور اپنے عظیم والد حسین کی گود میں شہید ہوگئے۔
9محرم الحرام کی شب حضرت امام حسین اور آپ کی اہل بیعت نے عبادت میں گزاری ، اور فجر کی نماز کے بعد یزید کی فوج سے آمنا سامنا ہوا اور جنگ شروع ہو گئی ، ایک طرف تربیت یافتہ اور اسلحہ سے لدی ہوئی فوج اور ایک طرف 72 جاں نثار جن میں عورتیں اور معصوم بچے بھی شامل تھے، آپ خواتین اور بچوں کو خیموں میں بھیج کر خود میدان جنگ میں آگئے آپ کے ساتھی بہادری سے لڑتے ہوئے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے ۔
دشمن کی فوج کا گھیرا تنگ ہوتا گیا آپ اکیلے رہ گئے دشمن نے آپ پر تیروں کی بچھاڑ کر دی اسی دوران نماز ظہر کا وقت ہو گیا اور آپ نے گھوڑے سے اتر کر نماز کی نیت کی اور اس دوران دشمن کے کسی سنگ دل سپاہی نے سجدے میں ہی امام حسین کی گردن پر وار کیا اور ۔یوں حضرت امام حسین نے اپنی جان دے کر رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ “مسلمان کبھی باطل کے سامنے نہیں جھکتا”۔