تحریر: سفینہ نعیم ایک ایسا جزبہ جو بام و در کو ہلا دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بجلی کی سی چمک اور ستاروں جیسی دمک جس کی پہچا ن ہو۔ہوائوں کے رخ موڑنا اورگر تے ہوئوں کو تھام لینا جس کی فطرت ہو۔جس نے کشتیاں بھی جلا ئیں اور بحر ظلمات میں گھوڑے بھی دوڑائے۔۔۔جو راجہ دہر سے بھی ٹکرا یا اور رسومنات کا مندر بھی توڑا۔۔۔۔جس نے سر سیّد کے سا منے زانوائے تلمند بھی طے کیے اور اسلاف کے خوابوں کی تعبیر بھی بنا۔۔۔۔جو علامہ اقبال کے شا ہین سے بھی ملقب ہوا۔
قائد اعظم کا ہر اول دستہ بھی بنا۔یہ جذبا ت ،یہ قوت ،یہ عزم اور یہ طا قت وہی نوجوان نسل ہے۔جس کو قوم نے آج لائق التفات نہیں سمجھا ،جس توجہ و سر پر ستی کا وہ مستحق تھا وہ اسے نہ دی گئی ۔جس اعتما د بھر وسے اور یقین کی اسے ضرورت تھی وہ چھین لیا گیا ۔بالآخر وہ بے وقعت ہو کر اپنی ہی نظروں سے ایسا گرا کہ نشانِ منزل بھی گم کر بیٹھا ہے۔آخر اس کے بیگا ڑ کا ذمہ دار کون؟؟؟کون ہے جس نے اس کو راہِ راست سے بھٹکا دیا ؟؟؟کون ہے جس نے اسے بے راہ روی و ظلمت کی راہ دکھائی ؟؟؟کون ہے جس نے اس سے روشن صجیں اور سر مئی شا میں چھین لیں؟؟؟و ہ کون ہے جس نے اس سے قرطا س و قلم اور عزت و آبرو چھین لی؟؟؟
آیئے اس کا جا ئز ہ لیں :کیا اس کے ذمہ دار وہ والدین ہیں جنھوںنے نئی نسل کے اوقات ِزند گی کا کبھی احتسا ب نہیں کیا ؟؟؟اس کی صبحوںاور شا موں پر نظر نہ رکھی۔۔۔اس کی محفلوں ، دوستیوں اور صحبتوں کو پر کھنے کی زحمت گوارہ نہ کی ۔۔۔رات کو دیر سے گھر آنے اور جلدی بیدارنہ ہونے پر کبھی نہ ٹوکا۔کیا اس کے ذمہ دار وہ اسا تذہ ہیں جنھوں نے اسے زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے علاوہ ہر کام کیا ۔۔۔اس کو غیر نصا بی اور ہم نصابی سر گرمیوںمیں الجھا ئے رکھا۔
اسکول و کا لج آنے نہ آنے پر کبھی با ز پرس نہ کی۔۔۔۔اخلا ق و کردار سنوارنے اور تعمیرِ سیرت پر کبھی دھیان نہیں دیا۔۔تعلیم کا حقیقی تصور واضح کرنے کی بجا ئے گا ئیڈوں اور خلا صوں کی طرف راغب کیا۔کیا اس کے ذمہ دار وہ سیا ستدا ن ہیں جن کی گندی سیا ست اور غلیظ کردار و گفتار نے جھوٹ ،مکرو فریب ،دھوکا دھی اور گا لم گلوچ کے گر سکھا ئے؟گروہی ،لسانی اور علاقائی سیا ست میں ملوث کر کے تشدد کو ہوا دی۔۔۔
Pakistan Younger Generation
اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے تعلیمی اداروں میں بے جا مداخلت کی۔۔ووٹ بنک بڑھا نے ،ایجی ٹیشن اور اسٹریٹ پاور شو کرانے کے لیے استعما ل کیا ۔کیا اس کے ذمہ دار علما ئے کرام ہیں جنھوں نے محراب و منبر کا تقدس پاما ل کر تے ہوئے فروعی مسا ئل اور عصبتیوں کو پروان چڑھایا؟؟؟غلط فتوے با زیو ں کی وجہ سے کشت و خون کے دریا بہا ئے ۔۔۔قرآن و حدیث کی بجا ئے ذاتی دوکانداریاں چمکا ئیں۔۔۔کیا نسلِ نو کے بگا ڑ کی ذمہ دار حکو مت ِوقت ہے جس نے سا لہا سال سے مروج لارڈ میکا لے کا فر سو دہ اور اسلام دشمن نظا م تعلیم آج تک رائج رکھا ؟؟؟
تعلیم کو مدارس ،سرکا ری اور پر ائیو یٹ تعلیمی اداروں میں تقسیم کر کے طبقات کی بنیا د رکھی۔۔۔سا ٹھ سال گز رنے کے باوجود بھی ہم اسلامی نصا ب ِتعلیم مر تب نہ کر سکے ۔کیا اس کا ذمہ دار وہ معا شرہ ہے جس نے اس سے کتا ب چھین کر کلاشنکوف تھما دی ؟؟؟ہیر وئن کلچر سے متعا رف کروا کر دین و دنیا سے بیگا نہ کر دیا۔۔۔چھوٹے بڑے کا احترام ختم کر کے عریا نی،فحاشی اور بے راہ روی کی طرف مائل کیا ۔یا اس کا ذمہ دار وہ خود ہے جو اپنی قیمتی زندگی بے مقصدیت کی بنا پر ضا ئع کر رہا ہے۔۔۔۔دوستوں محفلوں اور سا تھیوں کے انتخاب میں غفلت برت رہا ہے۔۔۔
خوش گپیوں ،لطیفہ گوئی ،طنزو ح مزاح اور کھیل کود کو قرآن و حدیث پر تر جیح دے رہا ہے۔۔۔۔جذبا تیت کی رو میںبہہ کر کشت و خون کی وادی میںاتر رہا ہے ۔اگر مذکورہ بالا تمام عنا صر آج بھی اپنی ذمہ داریوں کا احسا س کریں تو یہ بگڑا ہوا نوجوان راہ راست پر آسکتا ہے۔ایسے حالات میں اسا تذہ کرام کو برئوے کار آنا پڑے گا ۔درس گا ہوں اور دانش کدوں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا کیو نکہ یہی وہ طبقہ ہے جو سماج کو سدھا ر سکتا ہے اور بگڑی ہوئی نسل نو کو سنوار سکتا ہے۔۔۔مگر اس کے ساتھ ساتھ والدین، علمائے اکرام ،سیاستدانوںاور حلقہ احباب کوبھی اپنی اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہونا چاہیے۔