تحریر: مفتی محمد سعید رضوی بانی پاکستان کی سوچ کیا تھی اور وہ کس قسم کا پاکستان بنانا چاہتے تھے اسکی وضاحت انکے خطبات اچھے طریقے سے کرتے ہیں اور مختلف مواقع پر انکے دیے گئے انٹرویوز انکے ذہن کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ ایک اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے کس قدر خوہش مند تھے مگر کچھ عرصے سے ناجانے ایک مخصوص طبقے کو پاکستان کا اسلامی ہونا کیوں کھٹکنے لگا ہے جو ہر بات میں پاکستان کے اسلامی تشخص پر تنقید کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں حیرت کی بات تویہ ہے کہ جس ملک میں رہنا جسکا کھانا پھر اسی پر تنقید کر نا ہی انکی دانشوری ہے جنکی گفتگو کی ہر تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ ہم ایک گھٹن زدہ معاشرے میں رہ رہے ہیں یہاں آزادی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ ۔مگر جب ہم اس ملک کی آزادی دیکھتے ہیں تو انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں اگر یہ آزادی بلکہ مادر پدر آزادی نہیں تو اور کیا ہے اس آزادی کی سب سے بڑی مثال ہماری آزاد عدلیہ ہے اس عدلیہ کو آزاد کروانے کیلئے کتنی جانوں کی قربانی ہوئی ؟کتنے سہاگ اجڑے؟کتنے بچے یتیم ہوئے؟ تب جاکر عدلیہ آزاد ہوئی یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ عدلیہ قید کب تھی اور کس کے پاس تھی اگر حکمرانوں کے زیر اثر تھی تو کیا آج واقعی عدلیہ آزاد ہے ؟ بہر حا ل عدلیہ آزاد ہوئی تو ایسی آزاد ہوئی کی اب کسی کے قابومیں نہیں آرہی۔۔
تین بے گناہ پاکستانیوں کا قاتل ریمنڈ ڈیوس رہا ۔۔۔۔۔عدلیہ آزاد ہے ہزاروں بے گناہ پاکستانیوں کے قاتل دہشت گرد رہا۔۔۔۔۔عدلیہ آزاد ہے بیوا ئوں کی زمینوں پر قبضے کرنے والے رہا ۔۔۔۔۔عدلیہ آزاد ہے پانچ لاکھ دس ہزار ڈالر سمگل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑی جانے والی ایان علی سولہ مرتبہ پیشی کے باوجود فردجرم سے آزاد ۔۔۔۔۔عدلیہ آزاد ہے ایان علی کو پکڑنے والا کسٹم آفیسر قتل کر دیا گیا قاتل کہاں ہیں کوئی پتہ نہیں ۔۔۔۔۔عدلیہ آزاد ہے ایک سیاسی شخصیت کی فون کال منظر عام پر آتی ہے کہ فلاں کام کرنا ہے اور جج صاحب فدویانہ انداز میں یقین دلاتے ہیں کہ ہو جائے گا ۔۔۔۔۔عدلیہ آزاد ہے پنجاب فوڈ اتھارٹی گندے ریسٹورنٹس کی تصویریں فیس بک نہیں لگا سکتی عدالتی حکم ۔۔۔۔۔عدلیہ آزاد ہے ایک ایم این اے جسکو یہ بھی پتہ نہیں کہ اس نے کس مضمون میں ایم اے کیا اسکی نااہلی کا فیصلہ کالعدم رکنیت بحال ۔۔۔۔۔عدلیہ آزاد ہے این اے 122 کے دونوںامیدواروں کے حد سے زیادہ اخراجات کا نوٹس لیا اور امیدواروں نے کہا کہ یہ پوسٹر (جو کہ خلاف ضابطہ ہیں )ہمارے سپورٹرز نے اپنی جیبوں سے لگائے ہیں تو انکی دلیل مان لی گئی۔۔۔۔۔عدلیہ آزاد ہے ایسی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عدلیہ”ِ آزاد” ہے ۔
Allah
حد تو یہ ہے کہ اتنی آزادی پر بھی اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ حدوداللہ کے معاملے میں بھی آزاد ی دکھانا ضروری سمجھا گیا جیسا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج صاحب فرماتے ہیں کہ ”جس نے سود نہیں لیناوہ نہ لے اور جو لے گا اسے اللہ پوچھے گا ” پھر ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آپکے ہی ایک ساتھی نے ممتاز قادری کی سزاکو بحال رکھنے کے ساتھ ساتھ دہشت گر دی کی کالعدم کی گئی دفعات کو دوبارہ موثر کر نے کا ”کارنامہ ”بھی سر انجام دیا ہے کیا انکو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ اس نے قتل کیا ہے اسے اللہ پوچھے گا اس فیصلہ پر سوالات تو قیامت تک اٹھائے جاتے رہیں گے کیونکہ ہمارے آئین کی پہلی سطر یہ ہے کہ” قر آن وسنت سپریم لاء ہیں ”۔
پاکستان میں کوئی قانون قرآن وسنت سے متصادم نہیں بن سکتا آپ ہماری بات نہ مانیے ہم توٹھہرے تنگ ذہن لوگ ہم تو ممتاز قادری کے حمائتی ہیں اسکو بچانے کیلئے قرآن وسنت سے سو دلائل دیں گے ہماری توچھوڑیئے آپ اپنے پیٹی بند بھائی کاسیشن کورٹ کا فیصلہ ہی پڑھ لیتے جسمیں وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ ممتاز قادری کا ایکٹ قرآن وسنت کی روشنی میں درست تھا پھر بھی گلہ ہے کہ آزادی نہیں اور کتنی آزادی چاہیے ایک اسلامی مملکت میں آپ قرآن وسنت پر مشتمل دلائل کو درخور ا عتناء نہ سمجھیں اور حدوداللہ کو پامال کر نے کی جسارت کریں اور کوئی آپ سے پوچھنے والا بھی نہ ہو عجیب بات ہے کہ کسی جج کے فیصلے یااس کی شخصیت پر کوئی انگلی اٹھائے تو اس کے سر پر توہین عدالت کی تلوار لٹکتی ہے لیکن ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ توہین عدالت بڑی ہے یا توہین احکامات الہیہٰ؟۔
Riba
اگر کوئی جج سود جیسے جرم کو جرم نہ سمجھے جسے قرآن پاک میں اللہ اور اسکے رسول سے جنگ قرار دیا گیا ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فر ماتے ہیں کہ میں نے کچھ لوگ ملاحظہ فرمائے پیٹ انکے پھول کر مثل مکان کے ہو گئے ہیں اور مثل شیشہ کے ہیں کہ اندر کی چیز نظر آتی ہے سانپ بچھوان میں بھرے ہیں میں نے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں جبریل نے عرض کیا سود خور (ابن ماجہ شریف) صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ روایت فر ماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود خور پر لعنت فرمائی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ سود کے ستر ٹکڑے ہیں سب سے ہلکا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے (ابن ماجہ) اور ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ سود کا ایک درہم دانستہ کھانا ایسا ہے جیسا 36بار اپنی ماں سے زنا کر نا کو جس کام کو اللہ اور اسکا رسول جرم قرار دیں تو کیا کسی جج کو حق پہنچتا ہے کہ وہ لوگوں کو اختیار دے کہ جس کا جی چاہے وہ یہ جرم کرے جس کا جی چاہے وہ نہ کرے۔
اگر آپ نے یہ اجازت دینی ہی ہے تو پھر صرف سود پر ہی کیوں آپ قتل پر بھی اجازت دیں جو قتل نہیں کرنا چاہتا نہ کرے جو کرے اللہ اس سے پوچھے گا جو زنا نہیں کرنا چاہتا نہ کرے جو کرے گا اللہ اس سے پوچھے گا جو کسی کا مال ناحق نہیں کھانا چاہتا وہ نہ کھائے مگر جو کھائے گا اللہ اس سے پوچھے گا ۔ اگر آپ نے سب کچھ آخرت پر ہی چھوڑنا ہے تو آپ گھر تشریف لے جائیے کیوں قوم کا روپیہ برباد کر رہے ہیں ۔ آپ کی تنخواہ اوربے محابامراعات اس لیے تو نہیں ہیں کہ آپ حدود اللہ کو پامال کریں اور اگر کوئی اس کے خلاف آواز اٹھائے تو توہین عدالت لگا دیں کیا ایسا کرنے سے حق بولنے والوں کو آپ روک لیں گے؟۔
اس امت کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سبب خیر امة کا لقب ملا ہے۔ اگر یہ فریضہ نبھانا چھوڑ دیں گے تو ہم میں اور بنی اسرائیل میں کیا فرق رہ جائے گا انکی تباہی اور بربادی کا باعث بھی تو یہی تھا کہ جب جرم کرنے والا بڑا ہو تو چھوڑ دیا جائے ۔ چھوٹا ہو تو سزا دی جائے ۔ طاقتور ہو تو چھوڑ دیا جائے کمزور ہو تو سزا دی جائے قبر میں حکمرانوں نے کام نہیں آنا یہ مال و دولت سب دنیا میں رہ جانے والی چیزیں قبر کو روشن کرنے والی چیزیں آپکے حق و صداقت پر مبنی فیصلے ہوں گے ورنہ یہ ضروری تو نہیں کہ دنیا میں سپریم کورٹ کے جج کو کوئی پوچھ نہیں سکتا کوئی اسکا احتساب نہیں کر سکتا تو آخرت میں بھی ایسا نہیں ہو گا وہ جو احکم الحاکمین ہے اسکی عدالت میں آپ کو بھی پیش ہونا ہے۔ پھر اس کے فیصلے اٹل ہیں وہاں تو ایک ایک ذرے کا حساب دینا پڑے گا وہاں تو کسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہ ہو گا۔