تحریر : ندیم شیخ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے بجا طور پر کہا ہے آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہو گا،جسٹس سرمد جلال عثمانی کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے اپنے خطاب میں انہوں نے فرمایا کہ اداروں کا اپنی حدود سے تجاوز کر نا جمہوریت کے لئے زہر قاتل ہے، کسی بھی معاشرہ میںسماجی ترقی،عوام کی خوشحالی اور جمہوریت کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی ہو ،ایسا اسی صورت میں ممکن ہے جب ہر ادار اپنا اپناکام آئینی اور قانونی تقاضوں کے مطابق فرض شناسی کے ساتھ سرانجام دے رہے ہوں ،آئین میں تمام اداروں میں تقسیم کار کا اصول وضح کیا گیا ہے جس کے تحت ریاست میں حقوق اور حدود کا تعین کیا جاتا ہے،ریاست کے تینوں ستون عدلیہ،انتظامیہ اور مقننہ اپنی مقررہ حدود میں رہتے ہوئے کا م کر رہے ہو ں تو کوئی شک نہیں ملک اور عوام ترقی نہ کریں، عدلیہ پر دیگر دونوں اہم اداروں انتظامیہ اور مقننہ پر اس لئے ممتاز مقام حاصل ہے کہ اس پر بنیادی حقوق کے تحفظ کی بھاری ذمہ داری عائد ہو تی ہے۔
یہ امر مسلمہ ہے کہ عدل و انصاف کا عمل ملک میں وحدت و اخوت کا باعث ہو تا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ کسی بھی اختلاف یا بدمزگی کی صورت میں عوام کی نظریں عدلیہ ہی کی جانب لگی رہتی ہیںدوسری جانب عدلیہ کی بھی ہمیشہ کوشش ہو تی ہے کہ عوامی مفاد میں ایسا فیصلہ دیا جائے جس سے غیر قانونی اقدامات کی حوصلہ شکنی ہو اور معاشرہ میں امن و انصاف کا بول بالا ہو ،اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے قیام کو 70برس ہو نے کو ہیں لیکن اتنا عرصہ گذرنے کے باوجود ہم ملک میں عد ل و انصاف کی بالادستی کو یقینی نہیں بنا سکے،پاکستان بننے کے بعد اب تک ہم تو یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ مملکت کو چلانے کیلئے کونسا نظام حکومت اپنایا جائے، 1973 کا آئین متفقہ ہو نے کے باوجود تین بار اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔
فوجی ڈکٹیٹروں نے پاکستان کی عوام کی امنگوں کے ترجمان آئین پاکستان کو پائوں تلے روندا اور کاغذ کا ٹکڑا جانتے ہو ئے پھاڑ پھینکا جس کی وجہ سے ملک میں جمہوری روایات اور قدریں زور نہ پکڑ سکیں،چیف جسٹس آف پاکستان نے بالکل درست فرمایا ہے کہ اداروں کا حدود سے تجاوز کر نا جمہوریت کیلئے زہر قاتل ہے،ہمارے ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی بڑے ادارے نے اپنی حدود سے تجاوز کیا تو ملک میں انارکی پھیلی اور تمام نظام مفلوج ہو کر رہ گیا،بدقسمتی سے آج بھی اداروں میں موجود طاقتور لوگ ملک کے آئین کو ماننے کو تیار نہیںاور آئین و قانون کو اپنا تابع رکھنے کو کوششوں میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے عام آدمی کو انصاف ملنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے ان تمام حالات کی اصل اور بنیادی وجہ قانون سے روگردانی ہے اور جب تک ہم قانون کا احترام دل سے نہیں کرتے ہمارہ معاشرہ مسائل کا شکار رہے گا۔
Law
آج بھی ہمارے ملک کی اعلیٰ عہدوں پر تعینات بیوروکریسی اور حکومتی عہدیدار اپنے آپ کو قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں جب اعلیٰ سطح پر قانون کا احترام نہ ہو تو عوامی سطح پر کیسے ممکن ہے کہ قانون کو اسکی روح کے مطابق لاگو کیا جاسکے؟دراصل ہمارے معاشرے میں بگاڑ کی اصل وجہ ہی قانون کی بالادستی کو تسلیم نہ کیا جانا ہے، کہا جاتا ہے کہ ظلم کی حکومت تو چل سکتی ہے لیکن ناانصافی کی نہیں،تاریخ گواہ ہے جن معاشروں میں قانون کی بادستی کو قائم نہیں کیا گیا وہ بہت جلد تباہ ہو برباد ہوگئے،اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ملک میں با ر بار جمہوریت کو ڈیل کرنے کی اصل وجہ قانون کی بالادستی کو تسلیم نہ کیا جانا ہے،موجوہ عدلیہ کی جانب سے آئین کی بالادستی کو مقدم رکھنے کا عہد خوش آئند ہے۔
کچھ عرصہ قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ان کے رفقاء کی جانب سے قانون اور آئین کی سربلندی میں نہایت عمدہ کر دار ادا کیا گیا تھا،اس وقت ہمارے عدالتی نظام میں اصلاحات کی شدید ضرورت محسوس کی جا رہی ہے ،70سال گذرنے کے باوجود آج بھی انصاف عدالتی راہداریوں میں گم سا ہو کر رہ جاتا ہے اور کرپشن کی کہانیاں اب بھی زبان ذد زبان ہیں،عام آدمی کو ایسا محسوس ہو تا ہے کہ جیسے پاکستان کی منزل کھوسی گئی ہے،جسٹس افتخار چوہدری کی عدلیہ نے اپنا کھویا ہو ا وقار کافی حد تک بحال کیا تھا۔
انہوں نے عوام کی امنگوں کو جگا کر عدلیہ کو امیدوں کا مرکز بنانے میں بھر پور کردار ادا کیا تھا،پاکستان کی موجودہ عدلیہ سے بھی گذارش ہے کہ پاکستان صر ف عوام کا ہے اور عدلیہ بھی ان کی ہے لہٰذا امید کی جاتی ہے کہ عدلیہ عوام کو سستا انصاف مہیا کرنے اور ملک میں جمہوریت کو استحکام دینے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرئے گی اور وقت آنے پرثابت کرنا ہو گا کہ عدلیہ آئین پاکستان کی حقیقی پاسبان ہے۔