تحریر: شاہ فیصل نعیم آج کا انسان سکون کی تلاش میں سر گرداں ہے مادیت پرستی کے باعث تسکین کا پہلو انسانی زندگی سے مفقود ہو کر رہ گیاہ ے تسکین کا تعلق جسم، ذہن اور روح سے ہے انسان روحانی تسکین کے لیے جنگلوں، درگاہوں اور تنہائیوں کے نا ختم ہونے والے سفر پر نکل پڑتا ہے اس کی منزل صرف سکون کی طلب ہو کر رہ جاتی ہے۔وقتِ حاضر کا انسان اس کش مکش میں مبتلا ہے کہ یہ دنیا تو وہی ہے جو آج سے ہزاروں سال پہلے تھی اور آج کا انسان بھی پہلے سے زیادہ تہذیب آشنا ہے لیکن پھر بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ سکون جیسی دولتِ گرانمایہ سے محرومی اس کا مقدر بنتی جا رہی ہے۔
کیا ہوا تیر ی دنیا کو اے خدائے کریم کہ زندہ لوگ ترستے ہیں زندگی کے لیے
انسان سکون کے لیے کسی ولی اللہ کی قربت چاہتا ہے اب سوال یہ ہے کہ وہ کیسے لوگ ہیں جو مسندِولایت پر براجمان ہیں کیوں کے آج کے دور میں ہر دوسرا شخص خود کو ولی کہلوانا اپنا پیدائشی حق خیال کرتا ہے لیکن جو حقیقی ولی اللہ ہوتا ہے اُس کی نظر میں اس دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی اُس کی زیادہ سے زیادہ کوشش اپنی اصلیت کو لوگو ں کی نظروں سے بچانا ہوتی ہے۔بلھے شاہ فرماتے ہیں :
چل بُلھیا چل اُوتھے چلئے جتھے سارے انے نہ کوئی ساڈی ذات پچھے نہ کوئی سانوں منے
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنے نصیب پر خوش ہیں ایسے لوگوں کو اللہ جس حال میں بھی رکھے وہ اسی میں خوش رہتے ہیں اس مقام تک پہنچنا بہت مشکل ہے اوراگر کوئی اس منسب کو پا لے تو دنیا اس کی غلامی میں آجاتی ہے۔انسان چاہے امیر ہو یا غریب وہ کسی نا کسی پریشانی یا مصیبت سے دوچارہوتا ہے کوئی مسائل کو ہنسی خوشی برداشت کر لیتا ہے اور مسائل میں سے ہی زندگی کی راہیں نکال لیتا ہے اور کوئی مسائل کو خود پر سوار کر کے مسائل کا شکا ر ہو جاتا ہے ۔ ایک پہلو سے اگر سوچاجائے تو یہ مسائل بھی انسانی زندگی کا حسن ہیں ذرا سوچیں کے اگر یہ ناہوں تو انسانی زندگی کیسی عجیب ہو گی ۔ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔
Life
مچھلی جاپانیوں کی من پسند غذا ہے انفرادی طور پر سب سے زیادہ مچھلی کا استعمال جاپان میں ہوتا ہے پہلے پہل جاپانی لوگ ایسا کر تے تھے کہ وہ سمندر سے مچھلی پکڑتے تھے اور لا کر فریزرز میں سٹور کر دیتے تھے اور پھر ضرورت کے مطابق تصرف میں لاتے تھے جس سے مچھلی تو ٹھیک رہتی تھی لیکن مزہ وہ نہیں رہتا تھااس کا حل جاپانیوں نے یوں نکالا کے مچھلی لانے والے جہازوں میں بڑے بڑے تالاب بنائے اور جیسے ہی سمندر سے مچھلی پکڑتے اسے لا کر تالاب میں چھوڑ دیتے اس سے کچھ حد تک افادہ ہو ا لیکن اتنا زیادہ نہیںیہاں پر پانی کی محدور مقدار کے باعث مچھلیوں کی نقل و حرکت سست پڑ جاتی تھی پھر جاپانیوں نے ایک لمبی تگ و دو کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کے سمندر میں مختلف مصائب کی موجودگی کے باعث مچھلیاں نقل وحرکت میں محو رہتی ہیں تو انہوں نے ایسا کیا کے تالاب میں مچھلیوں کے ساتھ ایک مگرمچھ بھی چھوڑ دیا اب اس کا اثر یہ ہوا کے تالاب میں خطرے کا وجود مچھلیوںکو حرکت میں مگن رکھتا اور جاپانیوں کو تازہ مچھلی میسر آ جاتی اور اس کا ذائقہ بھی عمدہ ہوتا۔
انسان کی مثال بھی ان مچھلیوں کی طرح ہے یہ دنیا تالاب ہے جس میں ہم تیر رہے ہیں اور مصائب مگرمچھ کا کردار ادا کر رہے ہیں ہمیں زندگی کے ہر میدان میں مختلف مسائل سے نبر د آزما ہونا پڑتا ہے اگر زندگی میں مصائب نا ہوں تو زندگی بے مزہ ہوجائے اس کا سارا تانہ بانہ بگڑ جائے۔ مصائب کو شکست دے کر زندگی جینے میںجو مزہ ہے وہ مصائب کے بغیر نہیں ہے ،بغیر جنگ لڑے جیت میں وہ مزہ کہاں جو جان کی بازی لگا کر جیتنے میں ہے،اس کامیابی کا مزہ کیا جو آرام سے مل جائے، اس دولت کا مزہ کیا جو خون پسینہ ایک کر کے نا کمائی ہو ااور اُس عشق کا مزہ کیا جس میں دنیا آڑے نا آئے۔۔۔۔۔؟؟؟
مشکل حالات ہر انسان کی زندگی میں آتے ہیں لیکن انسان کو حوصلے سے کام لینا چاہیے ہمت نہیں ہارنی چاہیے ہر مشکل کے پسِ پردہ کو ئی نا کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے جو بھر وقت انسان کی عقل و دانش سے بالاتر ہوتی ہے کیونکہ ستر مائو ں سے زیادہ پیار کرنے والا رب اپنے شہکار کو بلاوجہ کسی مشکل میں مبتلا نہیں کرتا۔