تحریر : عا مر نواز اعوان محترم قا رئین ! یہ ایک دلچسپ اتفاق بھی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ موجودہ دور میں قومی سطع کی سیاست مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے محور میں زیر گردش ہے ۔ عوام کی نظریں مسلم لیگ ن کی حکومت پر اس حوا لے سے لگی ہو ئی ہیں کہ کیا معلوم یہ لوڈشیڈنگ کا خا تمہ کر دیں عوامی و سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر ن لیگ کی حکومت اپنے جانے سے پہلے پہلے لوڈشیڈنگ کا معاملہ حل کرتی جائے تو یہ بعید نہیں کہ 2018 ء کا انتخابی میدان ن لیگ کے لئے اچھا ثابت ہو ۔ لیکن اب تک ن لیگ کا عوام کو کچھ ڈیلیور نہ کرنا بھی ایک سوالیہ نشان ہے ۔ کیو نکہ ن لیگ کی حکومت کا رویہ بتا رہا ہے کہ وہ پہلے تو سنجیدہ ہی نہ تھے کچھ عمران خان کے رولے نے ان کو سنجیدہ کیا لیکن اس کے باوجود وہ کچھ عوام کو نہ دے سکے جس کی عوام کو توقعات تھیں۔
پو رے پنجاب کے عوامی و سیاسی حلقوں میں یہ کہا جا تا ہے کہ حلقہ این ا ے اکسٹھ ن لیگ کا گڑھ ہے اور یہاں ن لیگ کا نظریا تی ووٹر رہتا ہے ۔ اس با ت میں کو ئی دوسری را ئے نہیں کہ تلہ گنگ ن لیگ کا گڑھ ہے اور مسلسل ہر الیکشن میں یہ بات ثا بت ہو جا تی ہے جب الیکشن وا لے دن شام کو ووٹوں کی گنتی ہو تی ہے کہ ن لیگ جیت گئی ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ ن لیگ کے ٹکٹ کیلئے ہر امیدوار کی دوڑیں لگ جا تی ہیں ۔ خوا ہ وہ ن لیگ کا دیرینہ کا رکن ہو یا ن لیگ کے ایم این اے یا ایم پی اے کا چاپلوس ہی کیوں نہ ہو۔ اور پھر ایک لا بی مسلسل ٹکٹ کی تقسیم کے حوا لے سے متحرک رہتی ہے اور اس کا پروپیگنڈہ تقریباَ َ کا میا ب رہتا ہے۔
میں اپنے پچھلے کالم میں بات کر چکا ہوں کہ اس بار کی ن لیگ کے ٹکٹ تقسیم کی کہانی، لیکن ایک بات کرنا چاہوں گا کہ اس بار ماحول میں کچھ تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ ن لیگ کے ٹکٹوں کی تقسیم میں ایک بار وا ضع یہ دیکھا گیا کہ ملک سلیم اقبال کی لا بی نے اپنا پروپیگنڈہ کا میاب کر لیا ہے لیکن ایم پی اے سردار ذوالفقار علی خان دلہہ کا ڈٹ جا نا ان کیلئے زہر قا تل ثا بت ہوا ۔ گو کہ سردار ذوالفقار علی خان دلہہ جو امیدوار سا منے لا ئے ہیںوہ ملک سلیم اقبال کے امیدواروں کے مقا بلے میںاتنے مضبوط امیدوار نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا اپنا کو ئی دھڑہ ہے کیو نکہ الیکشن جہاں پارٹی کے ووٹ پر لڑا جا تا ہے وہاں اپنا سیاسی دھڑہ ہو نا بھی بے حد ضروری ہے ۔ بحرحال ایم پی اے سردار ذوالفقار علی خان دلہہ نے ڈٹ کر ایک نئے ماحول کو جنم دیا ہے ۔ کہ پرا نے کھوسڑ وں کو چھوڑ کو نئے چہرے سا منے لا ئے جا ئیں۔ عوامی حلقوں میں اس بات کو سراہا گیا ہے ۔لیکن ن لیگی حلقوں میں اس بات نے نفرت کا بیج بو یا ہے جس کانتیجہ بلدیا تی الیکشن کا نتیجہ آنے پر دیکھا جا سکتا ہے۔
PML-N
بلدیا تی الیکشن میں کیونکہ پارٹی ووٹ سے زیادہ اپنا سیاسی دھڑہ پانسہ پلٹنے میں کارآمد ثا بت ہو تا ہے ۔بلدیا تی الیکشن شخصی الیکشن کا نام ہے ۔ اگر ایک امیدوار کسی پارٹی کے ٹکٹ پربلدیا تی الیکشن لڑتا ہے تو اس سے اس پارٹی کا جیا لہ یا نظریاتی ووٹ تو کسی دوسری طرف نہیں جا تا ۔ لیکن جیت کا سبب اس کی شخصیت کا ووٹ اور اس کا ذا تی دھڑہ بنتا ہے ۔ اس نظریے کو اگر دیکھا جا ئے تو ن لیگ کے ٹکٹوں کی تقسیم سے معلوم ہو رہا ہے کہ اس کا فا ئدہ ق لیگ کے امیدواروں کو یا آزاد امیدواروں کو ہو گا۔
ق لیگ کو تلہ گنگ کی بارہ وارڈزسے ووٹ زیادہ ملنے کا امکان روشن دیکھائی دیتا ہے جس کی بڑی وجہ ن لیگیوں کی طرف سے ٹکٹوں کی غلط تقسیم اور پھر ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد آپس کے اختلافات ، ان تمام باتوں سے ہٹ کر ق لیگ کو سو ئی گیس کی وجہ سے ووٹ ملنے کا چانس زیادہ ہے۔ میں نے ذاتی طور پرتلہ گنگ کی کچھ وارڈز کا وزٹ کیا اور لوگوں کے خیالات دیکھے تو معلوم ہوا کہ وہ ظاہر میں ن لیگ یا تحریک انصاف کے امیدوار کو دیلا سے دے رہے ہیں لیکن ان کا اندر کا ووٹ ق لیگ کو جا رہاہے کیو نکہ جب کسی کے لب سے کسی دوسرے کی ہمدردی سامنے آئے تو اس کا واضع مطلب یہ ہی ہو تا ہے کہ وفاداریاں تبدیل ہو نے کا اندیشہ زیادہ ہے۔
Realities
میرا مقصد کسی کی حمایت کرنا نہیں مجھے کسی ن ،ق وغیرہ سے کچھ سروکار نہیں لیکن خدا لگتی بات کر نی چا ہیے اور زمینی حقائق پر بات کرنی چاہیے ۔ کہ اگر ن لیگ کی اعلیٰ قیادت ملک سلیم اقبال کے منتخب کر دہ تمام پینل کو ٹکٹ دیتی تو اس سے ق لیگ کو ٹف ٹائم ملتا۔ یا ملک سلیم اقبال کے پینل سے جن امیدواروں کو ٹکٹ نہیں ملے ان کو دوسرے ن لیگی امیدواروں کو سپورٹ کرنا چا ہیے تھی ۔ پھر توبات بنتی دیکھا ئی دیتی تھی لیکن اب ن لیگ کا ووٹ جہاں تقسیم ہوگا وہاں فا ئدہ دوسرے امیدوار کو ہو گا۔
ن لیگ کے سابقہ ٹکٹ امیدواروں اور موجودہ آزادامیدواروںکی مفاد پرستی کا اس سے واضع اندازہ ہو تا ہے کہ سبھی امیدوار اپنی خاطر الیکشن لڑ رہے ہیں سب کو اپنا مفاد عزیز ہے۔ کو ئی پارٹی سے مخلص نہیں دیکھا ئی دے رہاکیو نکہ ٹکٹ نہ ملا تو آنکھیں نکال لیں انہوں نے ن لیگ کو اور اس سے پہلے ن لیگ کے ترا نے بجا تے رہے۔ عوام کو چا ہیے کہ وہ جزبا تی ہو کو ووٹ نہ دیںاور نہ ہی ان امیدواروں کی چکنی چپڑی باتوں میں آئیں بلکہ اس بات سے ہی اندازہ لگا لیں کہ جب ان کوپارٹی ٹکٹ نہیں ملا تو ان کا رد عمل کیا تھا اور یہ کیا کر رہے ہیں ۔ اس لئے اپنے ووٹ کا درست استعمال کر کے حق دار آدمی کو کا میاب بنا ئیں۔ہاں اگر ان باغی امیدواروں میں بھی کو ئی حق دار ہے تو اسکو ضرور کا میاب کریں تا کہ آپ مفاد پرستوں سے بچ سکیں آج اگر آپ نے غلط فیصلہ کیا تو بعد میں پچھتا نے سے کچھ نہیں ملے گا ۔ اللہ میرا اور آپکا حامی و ناصر ہو۔
Malik Amir Nawaz
تحریر : عامر نواز اعوان aamir.malik26@yahoo.com 0300-5476104