تحریر: ایم سرور صدیقی کئی سال پہلے ٹی وی سکرین پر ایک منظر ابھرا انسداد ِ دہشت گردی کی عدالت میں ایک شخص کو پیش کیا جانا تھااس موقعہ پر حفاظتی انتظامات اتنے سخت تھے کہ چڑیا کو بھی پر مارنے کی تاب نہ تھی ”قیدی ”کو بکتر بند گاڑی میں کئی گاڑیوں پر مشتمل قافلہ کی حفاظت میں لایا جارہاتھا بکتربند گاڑی کے نمودار ہوتے ہی نہ جانے کہاں سے کچھ سیاسی کارکن جمع ہوگئے جو نعرے بازی کرنے لگے۔۔ ۔پولیس لاٹھیاں پکڑے ان کی طرف لپکی وہ سب کے سب ادھر ادھر غائب ہوگئے یہ ڈرامہ کئی بار دہرایا گیا پولیس والے مطمئن اس لئے تھے کہ کارکنوں کی تعداد توقع سے بھی کم تھی۔ عدالت کے احاطہ میں بکتر بند گاڑی رکتے ہی میڈیا سے وابستہ فوٹو گرافروں اور رپوٹروں میں کھلبلی سی مچ گئی اپنے ہی پسینے میں شرابور”قیدی ”کو گاڑی سے نیجے اتاراگیا قیدی نے میڈیا کے لوگوں کو دیکھ کر بازو بلند کیا ،ہاتھ لہرایا ۔۔مسکرانے کی کوشش کی لیکن بات نہ بنی مسکراہٹ پھیکی پھیکی رہی۔۔یہ” قیدی ”میاں نواز شریف تھے جن کی انسداد ِ دہشت گردی کی عدالت میں یہ پہلی پیشی تھی ایک منتخب وزیر ِ اعظم کے ساتھ ظالمانہ سلوک کی ابتداء ۔۔۔کہ انہیں جس بکتربند گاڑی میں لایا گیااس میں نارمل اندازمیں بیٹھنا بھی مشکل تھا۔
پھرکچھ عرصہ بعد اس قیدی کو پورے خاندان کے ساتھ جلاوطن کردیا گیا اس کے بھائی نے وطن واپس آنے کی کوشش کی تو لاہور ایئر پورٹ سے واپس بھیج دیا گیا ۔۔۔کچھ وقت گذرا جلاوطنوں پر ایک اور قیامت ٹوٹی اس خاندان کا سربراہ اپنے خالق ِ حقیقی سے جا ملا لیکن خاندان کے کسی فردکو اپنے بزرگ کی تدفین کیلئے وطن واپس آنے کی اجازت نہ ملی خود تیسری بار وزارت ِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونے والا آج تک اس سوچ میں گم ہے کہ اتناتکبر۔۔۔ اتنا غرور۔۔۔اتنی فرعونیت اور اقتدار کا اتنا نشہ بھی ہو سکتاہے کہ تمام تر اخلاقی اقدار بھی فراموش کردی جائیں لوگوں کو مکے دکھا دکھا کر ڈرایا جائے اور اس کے ساتھی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں اور اس ہاںکو مفاہمت کی سیاست کا نام دیا جائے ۔۔۔سیاستدانوںکی اس ادا نے آمریت کی دہلیزپرجمہوریت کوذبح کرکے رکھ دیاشاید اسی طرزِ عمل کے باعث پاکستان میں نصف صدی سے جمہوریت اور آمریت کے درمیان ٹوم اینڈ جیری کا کھیل کھیلا جارہا تھا۔
12 اکتوبر 1999ء آن پہنچا اس روز جمہوریت پر آمریت سکالی لیپ بن کر گرا اور نہ صرف ہیوی مینڈیٹ رکھنے والی جمہوری حکومت ختم کردی گئی بلکہ منتخب وزیر ِ اعظم کو اہل ِ خانہ اور انکے درجنوں ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا گیااور پرویز مشرف نے قوم اور سیاستدانوںکو مکے دکھا کراقتدارپر قبضہ کرلیا۔۔۔ماضی میں جب بھی ڈکٹیٹرو ں نے جمہوریت کو فتح کیا بدقسمتی سے سیاستدانوںنے ہی کبھی فوج کو اقتدارپر قبضہ کرنے کیلئے خط لکھے۔۔کبھی ان کا بھرپور ساتھ دینے کااعلان کیاپرویز مشرف کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیلئے سب سے خوبصورت باتیں چوہدری پرویزالہی کیا کرتے تھے انہوںنے تو متعدد بار جنرل صاحب کو دس مرتبہ باوردی صدر منتخب کروانے کااعلان کرڈالا لیکن سومیٔ قسمت سے ان کی خواہش اور پرویز مشرف کی حسرت پوری نہ ہوئی جونہی ڈکٹیٹر نے اپنی کھال نما وردی اتاری آسمان ہی ان کا دشمن ہوگیااقتدار اتنی ناپائیدار چیزہے کہ ماضی کے تمام دوست آج پرویز مشرف کا حال تک پو چھنے کے روادار نہیں یقینا اس صورت ِ حال میں سابق صدر المعروف ڈکٹیٹر یہ شعر اکثر گنگناتے ہوں گے۔
Pervez Musharraf
کچھ حال کے مخلص ساتھی ہیں کچھ ماضی کے عیار سجن احباب کی چاہت کی کہیے ،کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
موصوف ان دنوں تنہائی جیسے روگ نما مصیبت میں مبتل اہیں اللہ معاف کرے ایسے حالات میں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتاہے بندوں کا کیا بھروسہ؟۔۔۔انسان ہے کہ مکافات ِ عمل کے بارے میں کچھ نہیں سو چتا ۔صرف حال بارے فکر مند رہنااس کا وطیرہ ہے۔۔۔ کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے مشرف کے معاملہ میں ہماری آنکھوں کے سامنے تاریخ دہرائی جارہی ہے میاں نواز شریف کو مرحوم والدکی تدفین کیلئے وطن واپس آنے کی اجازت نہیں دی گئی اور اب پرویز مشرف کو اپنی والدہ محترمہ اور اپنے علاج کیلئے دبئی جانے کی اجازت نہیں ملی۔ایک وقت تھا سارے اختیارات پرویز مشرف کے ہاتھ میں تھے ان کا ہر فرمان قانون تھا عدالتوں کے حکم کے باوجودمیاں نواز شریف اورمیاں شہباز شریف کوپھر جلاوطن کردیا گیا۔
آج تو حالات ایسے ہیں کہ سابق صدر نے عدلیہ پر اعتمادکااظہارکیاہے انہیں انصاف کی توقع ہے۔۔۔ امیدہے بلکہ یقین ہے۔۔پرویز مشرف نے شریف فیملی کے ساتھ جو کچھ کیا میاں نواز شریف نے اسے معاف کردیا ہے لیکن سابق ڈکٹیٹرکے دو گناہ ناقابل ِ معافی ہیں سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے کے باوجود پاکستان کو پرائی جنگ میں دھکیل دیا گیاجس کی وجہ سے ملک میں آگ اور خون کا نہ ختم ہونے والا لامتناہی سلسلہ اب تک جاری ہے پرائی جنگ کے اثرات سیاست، معیشت ، معاشرت پراس قدر غالب ہیں کہ سب کچھ تلپٹ سا ہو گیا ہے الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔
Pak Army
کے مصداق سنبھلنے کی کوششوں میں مسائل ہیں کہ الجھتے ہی جارہے ہیں۔۔۔دوسرا کارگل ایڈونچر جس کی وجہ سے اقوام ِ عالم میں پاکستان کی سبکی ہوئی اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی بہادر افواج کا شمار دنیا کی بہترین فوجوں میں کیا جا سکتاہے اور پوری پاکستانی قوم اپنے وطن کے دفاع اور سرحدوں کی حفاظت کیلئے ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے افواج ِ پاکستان نے بھی ہمیشہ ہر مشکل وقت میں قوم کو کبھی ما یوس نہیں کیا سیاست میں آنے سے ان کی کارکردگی متاثر ہونے کااحتمال رہتا تھا قوم کی خواہش کے پیش ِ نظر ہماری عسکری قیادت نے اپنے آپ کو پیشہ وارانہ مصروفیات کو بہ احسن و خوبی پورا کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ خوش آئند بھی ہے اور تاریخ ساز بھی جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے موصوف پاکستان سیاست میں حصہ لینے آئے تھے لیکن لینے کے دینے پڑ گئے اب مشرف کمبل چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن کمبل ہے کہ انہیں چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا عدالت میں انہوں نے بڑے دکھ کااظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ میں نے ملک کی خدمت کی پھر بھی غدار کہا جارہا ہے مجھے خدمات کا کیا صلہ ملا؟۔۔۔
سابق جنرل کو کوئی صلہ ملے یا نہ ملے ایک بات سچ ہے ہماری آنکھوں کے سامنے ایک بار پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے تاریخ کیا فیصلہ دیتی ہے خدا ہی بہتر جانتاہے لیکن میاں نواز شریف نے کارگل کے معاملہ پر ایک غیر جانبدار کمیشن بنانے کااعلان کیا تھا اس کا کیا بنا؟کسی کو خبر نہیں۔۔۔مگر حالات یہ خبر بتا رہے ہیں کہ مشرف کے ساتھ جو کچھ ہوگیا وہی کافی ہے اب اس کیس سے جان چھڑا لینی چاہیے تاکہ کسی مشکل کے بغیر سکون سے مدت پوری کرلی جائے۔اب لگتاہے آمریت کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیاہے افرادکی بجائے اداروںکو مضبوط بنانے کا فیصلہ کرلیا گیاہے خداکرے ایسا ہی ہو۔ تاریخ بتاتی ہے پاکستان میں آج تلک کوئی آرمی چیف انتخابات کے بل بوتے پر اقتدار میں آنے کامیاب نہیں ہوا ویسے بھی سیاست پرویز مشرف کیلئے بھاری پتھر ثابت ہورہی ہے ان کی پارٹی صحیح معانوں میں تانگے کی سواریوںپر مشتمل ہے ان کوتونعرے لگانے کیلئے کارکن تک دستیاب نہیں ۔ ووٹوں کے ذریعے وزیر ِ اعظم بننا کسی دکٹیٹر کیلئے اتنا بھی آسان نہیں البتہ سوتے جاگتے خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں عین ممکن ہے پرویز مشرف کی وزیر ِ اعظم بننے کی خواہش ۔۔ زندگی بھر کی حسرت بن جائے حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے