تحریر: شاہ بانو میر یہ سوچ اپنے معاشرے سے ہمیں ملی اور یہی دیکھا بھی اور یہی تو المیہ ہے ذات کے غم ہم لوگ حاوی کر کے غمزدہ بن جاتے جبکہ ہمیں تو بڑے دماغ بڑی ذمہ داریوں کے ساتھ اپنی ذات کو فراموش کر کے دوسروں کے غموں کو محسوس کرنا تھا اور پھر ان کو خوشیاں دینی تھیں افسوس ذات کا غم بے مقصد زندگی میں حاوی ہوتا ہے ۔
جب غم کا اصل شعور مل جاتا ہے جب قوم کی بربادی دکھائی دیتی ہے جب امت کٹتی مرتی بکھرتی دکھائی دیتی ہے تو ذاتی شہرت ذاتی اعلیٍ معیار سب نیست و نابود آپکی اصل حیثیت اجتماعی حیثیت سے پرکھی جاتی ہے نا کہ گاؤں میں کسی چوہدری کسی وڈیرے نمبردار جاگیر دار افلاطون کی ذات کے جھوٹے معیار سے صذات کے غم کو پرے کریں۔
Moderation
لوگوں کا امت کا بکھرا ہوا مجمع دیکھیں تڑپتے سسکتے روتے بلکتے مسلمان دیکھی جلا وطن بھٹکتے ہوئے اپنے اہل ایمان دیکھیں سمندر کے پانی میں اچھلتے وہ بے جان وجود گنیں جن کے پیارے آج نہ جی رہے نہ مر رہے دوسری جانب ذرااپنی خوشحال پرسکون مطمئین زندگی دیکھیں تو صرف احساس ضمیر ایک لفظ کہلوائے گا الحمد للہ آپً سے سوال کیا گیا سورۃ البقرہ میں ہے پارہ دوٰم کہ ہم کیا خرچ کریں آپً کہہ دیجیے کہ جو ضرورت سے زائد ہو سوچئے اس آیت کا مقصد مطلب ہم جان لیتے تو میانہ روی کا دور نظر آتا اور آج امت !مسلمہ کا کوئی بھائی بہن در در بھیک نہ مانگتے۔
ہماری خواہشات کو لگام مل جاتی اور ہم امتَ وسط ہونے کا حق ادا کر کے پوری دنیا میں منظم طاقتور معتدل امت بن کر ا س وقت اجتماعی خوشحالی کا عملی عنوان ہوتے لیکن جزبہ اسلامی ہمارے وجود سے نکالنے کا بہترین طریقہ کار تھا نمائش کو پھیلانا پھر ایمان کمزور کروانا اور ان کے حصول کیلئے جائز نا جائز حدود کو قائم کرنا۔
اور توڑنا اگر آج بھی ہمارے اندر اس مختصرآیت کا مختصر مطلب اتر جائے تو ج بھی ہم جیسا کوئی نہیں اور اگر یہی حال رہا تو بنی اسرائیل کی طرح مسلسل انعامات کے بعد بھی انکار اور غرور کر کے سوائے اللہ کے قہر کے ہمیں کچھ حاصل نہیں سوچئے اپنی ضرورت سے جو زائد ہے وہ بانٹ دو تا کہ طاقتور امت وجود میں آئے طاقتور افراد نہیں۔