تحریر: شاہ فیصل نعین ہمارا معاشرہ بے حیائی کی حدوں کو عبور کرتے ہوئے جس سمت گامزن ہے وہ کسی خوش آئندہ حالات کو جنم نہیں دے گا بلکہ اس کے نتائج ہمیں اور ہمارے بعد آنے والی نسلوں کو بھگتناہوں گے ۔ اور یہ کسی تنگ نظر اور غبارِدل رکھنے والے انسان کے قلم سے ادا ہونے والے الفاظ نہیں بلکہ یہ ایک سچ ہے! ایساکڑوا سچ جسے دیکھ کر چاہے منہ موڑلیں چاہے مصر کی مقفل کال کوٹھریوں میںچھپا لیں یہ پھر بھی روزِروشن کی طرح عیاں ہے۔ وہ لوگ جو سچ کو دیکھ کر منہ موڑ لیتے ہیں یا آنکھیں موند لیتے ہیں اُن کی مثال اُس کبوتر کی ماند ہے جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بندکر لیتا ہے او ر سمجھتا ہے کہ خطرہ ٹل گیا۔
جب حیوانی خواہشات انسانیت پر حاوی ہو جائیں تو پھر انسان مذہب کی حدودوقیود کو خود پر ایک بوجھ محسوس کرتا ہے اور ان سے چھٹکارا پاتے ہوئے ایسے ایسے منصوبے بنا تا ہے جو انسانی معاشروں کو تباہی کی راہوں کی طرف دھکیل دیتے ہیں ۔”تحریکِ حقوقِ نسواں “انسان کے شیطانی دماغ سے جنم لینے والا ایسافتور ہے صنفِ نازک جسے سمجھنے سے قاصر ہے اور وہ خیال کر رہی ہے کہ یہ تحریک اُس کی خیر خواہ ہے ۔ ایسا ہر گز نہیں ہے اس تحریک کی تھوڑی سی حقیقت آپ کے گوش گزار کرتا ہوں ۔
انسان کی محبت جسمانی ہوتی ہے اس جسمانی خواہش کی تسکین کے لیے چاہے اُسے دنیا جہاں کی عورتیں دے دو یہ پھر بھی اُس کے لیے محدود ہیں انسان کی اس خواہش کی تکمیل کی راہ میں جو رکاوٹ ہے وہ ہے ذمہ داری کا بوجھ جب انسان کسی سے شادی کے بندھن میں بندھ جاتا ہے پھر اُس پرذمہ داری کا بوجھ آن پڑتا ہے اب اگر انسان زیادہ شادیاں کرے گا تو اُس پربوجھ بھی بڑھتاجائے گا۔انسان نے سوچاکہ کسی ایسی راہ کی کھوج ملنی چاہیے جس سے خواہش کی تکمیل بھی ہو جائے اور ہم ذمہ داری کے بوجھ سے بھی آزاد ہوں تو پھر اُس نے “تحریک حقوقِ نسواں ” کی ابتدا کی۔
Women Dance
عورتوں کو گھروں سے نکلنے ، نیم عریاں لباس زیب تن کرنے، ناچنے، گانے اور راتیں نائٹ کلبو ں میں گزارنے کو آزادی کا نام دیا اور عورت کی ستم ظریفی دیکھیں کے اُس نے بغیر سوچے سمجھے ان سب چیزوں کو اپنا لیا۔اہلِ مغرب اس کے سب سے بڑے علمبردار ہیں جہاں ہر سال لاکھوں حرام بچے جنم لے رہے ہیں اور نہیں کوئی جانتاکہ اُس کا باپ کو ن ہے…؟ عورت انسان کی اس مکاری کو نا سمجھتے ہوئے اس کی آلہ کار بنی ہوئی ہے انسان اس کو استعمال کرتا ہے اور اپنی راہ لیتا ہے۔ خواہش کی تکمیل بھی مل گئی اور ذمہ داری کے بوجھ سے چھٹکارا بھی …! اور خسارے میں رہی کون…؟ عورت !
انسان ایک ایسا صیاد ہے جو عورت کو اپنے چنگل میں پھنسانے کے لیے جال بچھائے ہوئے ہے اب عورت کو ضرورت ہے اس امر کی کہ وہ اس عیارصیاد کی مکاری کو سمجھے اور اپنا دامن اس کے حیوانی پنجوں سے بچا لے۔عورت معاشرے کے لیے اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کی گود میں معاشرے جنم لیتے ہیں اگر اس کا کردار اچھا ہو گا تو ایک اچھا معاشرہ جنم لے گا اور اگرعورت اب بھی خیال کرتی ہے کہ یہ تحریک اُس کی خیر خواہ ہے تو پھر انتظار کرے اُس وقت کا جو جلد یا بدیر اس معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر اہلِ مغرب جیسا روپ دینے والا ہے۔ یہی حقیقت ہے، یہی سچ ہے اب ماننا اور ناماننا ہر کسی کا اپنا فعل ہے۔
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی نا خوش میں زہرِہلا ہل کو کبھی کہہ نا سکا قند