تحریر: علی عمران شاہین مسئلہ کشمیر، تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا، سلطنت برطانیہ کی جانب سے پاکستان کیلئے چھوڑا گیا، ایسا زخم جو ہر روز پہلے سے زیادہ تکلیف دے رہا ہے۔ برصغیر پر قابض ہونے کے بعد انگریزوں نے ہندوئوں کے ساتھ ساز باز کی اور پھر مسلمانوں کو ہر لحاظ سے غلام بنایا۔ تاریخ گواہ ہے کہ انگریزوں نے یہاں رہتے ہوئے ہمیشہ ہندوئوں ہی کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا تھا۔ یہ اس غلامی کے دور کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمان جو ہزار سال تک اس خطے کے بلاشرکت غیرے حکمران رہے، سانس لینے تک کے لئے بھی انگریزوں سے زیادہ ہندوئوں کے محتاج تھے۔ تاریخ کی کتابیں اٹھا کر دیکھ لیجئے، سارے ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت انتہائی پتلی تھی۔ وہ کسی علاقے میں بھی آزادی سے گائے ذبح نہیں کر سکتے تھے۔
انہی حالات کو بھانپ کر مسلم رہنمائوں کو یہ خیال آیا تھا کہ جس طرح انگریزوں نے مسلمانوں کی گردنوں پر ہندوئوں کو مسلط کر دیا ہے، اس کے بعد تو مسلمان کبھی اپنی مرضی سے معمولی حرکت بھی نہیں کر سکیں گے، لہٰذا انہیں مذہب کی بنیاد پر الگ وطن حاصل کرنا چاہئے۔ دوسری طرف انگریز کی کوشش یہ تھی کہ ایسا نہ ہو سکے۔ لیکن جب انگریز اور ہندو اس باہمی سازش کو کامیاب نہ بنا سکے تو انہوں نے مسلمانوں کو ایسا لولا لنگڑا زمین کا ٹکڑا دینے کا پروگرام بنایا جسے وہ زیادہ عرصہ تک کسی صورت قائم ہی نہ رکھ سکیں بلکہ وہ خود ہی بے بس ہو کر بھارت کی باجگزار ریاست بن جائے۔
اس مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ہی بھاری مسلم اکثریت رکھنے والے کشمیر کو تمام اصولوں اور قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔ پاکستان بن گیا تو کشمیر پر پہلی پاک بھارت جنگ ہوئی جسے اقوام متحدہ کے ذریعے بند کروایا گیا۔ امریکہ نے اس وقت پاکستان کی دوستی کا دم بھرنا شروع کیا اور پھر… کشمیر پر بھارت کا قبضہ ہر روز مضبوط ہوتا چلا گیا۔ اس دوران میں 1962ء کا زمانہ آیا جب چین اور بھارت کی جنگ چھڑ گئی۔ قدرت اللہ شہاب تک نے اپنے شہاب نامے میں لکھا ہے کہ چین کے سفیر نے جنرل ایوب خان کو بذات خود پیغام پہنچایا تھا کہ اس وقت بھارت سخت مصیبت میں گرفتار ہے کیونکہ اس کی چین کے ساتھ جنگ جاری ہے۔ اس جنگ میں بھارت کی شکست یقینی ہے، سو پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھا کر کشمیر میں فوجیں داخل کرے اور اپنا کشمیر بزور شمشیر حاصل کرے لیکن جنرل ایوب خان نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ بھارت جیسے بڑے اور طاقتور ملک پر حملہ کر کے کشمیر پر اپنا قبضہ قائم کر کے اسے برقرار بھی رکھ سکیں۔ یوں چینی قوم کے دل میں یہ خلش موجود ہے۔
مقبوضہ کشمیر حاصل کرنے کا یہ سب سے نادر اور سنہری موقع پر ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے اس سب سے نادر موقع کو ہم نے کیسے کھویا تھا؟ اس کا ایک اہم انکشاف ایک نامور امریکی شخصیت بروس ریڈل نے اپنی تازہ ترین تصنیف میں کیا ہے جو چار امریکی صدور کے مشیر رہ چکے اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار ہیں، کہ پاکستانی صدر ایوب خان نے 1962 میں بھارت چین جنگ کے دوران ہندوستان پر حملہ نہ کرنے کے بدلے میں امریکہ سے کشمیر کا مطالبہ کیا تھاجبکہ امریکہ اور برطانیہ نے پاکستان کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ جنگ کے بعد وہ بھارت کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل نکالیں گے۔ تیس برس تک امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ساتھ کام کرنے والے بروس ریڈل نے اپنی نئی کتاب”JFK’s Forgotten Crisis” میں لکھا ہے کہ 1962ء میں پاکستان پوری طرح سے حملہ کرنے کی حالت میں تھا اور بھارتی فوج چین اور پاکستان کے اس دو طرفہ حملے سے پارہ پارہ ہوجاتی۔ریڈل کے مطابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے اس ممکنہ پاکستانی حملے کو روکنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
Pakistan
کینیڈی اور برطانیہ کے وزیر اعظم ہیرلڈ میکملن نے پاکستان پر یہ کہہ کر سخت دباؤ ڈالا کہ اگر وہ حملہ کرتا ہے تو اسے بھی چین کی طرح ہی حملہ آور ملک قرار دیا جائے گا۔پاکستان کا موقف تھا کہ چین اور بھارت کے درمیان جنگ سرحد کی جنگ ہے اور اسے سرد جنگ اور کیمونزم سے جوڑ کر نہیں دیکھا جانا چاہیے لیکن امریکہ اسے ایک کمیونسٹ طاقت کی طرف سے ایک جمہوری ملک پر حملے کی طرح دیکھ رہا تھا۔ 1962 میں پاکستان کے حملہ نہ کرنے کی بڑی وجہ یہ رہی کہ امریکہ اور برطانیہ کو ناراض کرکے پاکستان بالکل تنہا پڑ جاتا اور چین پر اس وقت کوئی یقین نہیں کر سکتا تھا۔ان دنوں بھارت میں امریکہ کے سفیر جان گیل بریتھ کے مطابق صدر ایوب خان امریکی مشورے کے بالکل خلاف تھے مگر جب ان سے کہا گیا کہ صدر کینیڈی ایک خط لکھ کر ان سے یہ گزارش کریں گے تو وہ سننے کو تو تیار ہوئے مگر ساتھ ہی انہوں نے یہ شرط رکھی کہ’ ‘اس کے بدلے میں امریکہ کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے خلاف سخت رویہ اپنانے کا وعدہ کرے”۔گیل بریتھ کی ڈائری کے حوالے سے بروس ریڈل نے لکھا ہے’ ‘دیکھا جائے تو ایوب خان یہ کہہ رہے تھے کہ امریکہ اور پاکستان ایک ساتھ مل کر بھارت کو مجبور کریں کہ وہ کشمیر ان کے حوالے کر دے، اسی طرح جیسے چین بھارت کی زمین پر قبضہ کر رہا تھا۔ اس معاملے میں کینیڈی کے معتمد مشیر سفیر گیل بریتھ ہی تھے جو نہرو کے اتنے قریب سمجھے جاتے تھے کہ بہت سے لوگ انھیں نہرو ہی کا مشیر کہنے لگے تھے۔کتاب کے مطابق ایوب خان نے کینیڈی سے کوئی وعدہ نہیں کیا اور ساتھ ہی اس بات پر ناراضی بھی ظاہر کی کہ امریکہ نے پاکستان کو بغیر بتائے ہی بھارت کو چین کے خلاف ہتھیار فراہم کئے۔
ایوب خان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ ہوئے اس سمجھوتے کو توڑا ہے جس میں اس نے1961 میں کہا تھا کہ چینی حملے کے باوجود امریکہ بھارت کو پاکستان کی منظوری کے بغیر فوجی امداد نہیں دے گا۔بروس ریڈل نے مزید لکھا ہے کہ 1965کی جنگ ایوب خان نے اپنے بل پر شروع کی تھی لیکن اس کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ وہ امریکی ہتھیار بنے جو امریکہ نے بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنے کے لئے دیے تھے۔ جنگ کے بعد جب ایوب خان نے اس کا مطالبہ کیا تو امریکی سفیر گیل بریتھ نے واشنگٹن کو جواب دیا کہ چین سے شکست کے بعد نہرو بالکل ٹوٹ چکے ہیں اور مقامی سیاست میں ان کی ساکھ اس وقت ایسی نہیں ہے کہ وہ کشمیر جیسے معاملے پر کوئی اہم فیصلہ کر سکیں۔کتاب کی رونمائی کے وقت ریڈل کا کہنا تھا کہ1962کے بعدپاکستان میں یہ بات گھر کر گئی تھی کہ پاکستان جس طرح کی شراکت چاہتا ہے اس کے لئے چین امریکہ سے کہیں زیادہ بہتر ثابت ہوگا۔
بھلا ہو بروس ریڈل کا، کہ ہم تو امریکہ کی دشمنی کو نہ سمجھ سکے لیکن اس نے ہمیں کچھ بتا ہی دیا، یہ ہے اس امریکہ کا اصل بھیانک چہرہ جسے ہم روز اول سے اپنا دوست گردانتے نہیں تھکتے۔ امریکہ نے معاملہ صرف کشمیر پر بھارتی قبضے کو مضبوط رکھنے تک محدود ہی نہیں رکھا تھا بلکہ 1971ء کی جنگ میں ہمیں بچانے کیلئے اپنا چھٹا بحری بیڑہ بھیجنے کا بھی اعلان کر دیا تھا جو آج تک نہیں پہنچ سکا۔یار لوگ تو اول دن سے کہتے آئے ہیں کہ پاکستان کے عوام بھی اس بات کو دل و جان سے جانتے اور مانتے ہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا دشمن امریکہ ہی ہے جو دوست کے روپ میں ہمیشہ نقصان پہنچاتا بلکہ تباہ و برباد کرنے میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا رہا ہے۔
وہ آج بھی ہمارے فوجی شہید کرتا اور ڈرون حملے کرتا ہے بلکہ 40 سال پرانی پریسلر ترمیم کی پابندیاں اب بھی عائد ہیں۔ افسوس ہے ان حکمرانوں پر جنہوں نے آج تک امریکہ کی اس دشمنی کو کبھی نہیں سمجھا اور اس آستین کے سانپ کو ان سب نے ہمیشہ ہی دودھ پلایا۔ یہ آستین کا سانپ اس قدر خوفناک ہے کہ اس نے بھی مقبوضہ کشمیر کو اول دن سے بھارت کے قبضے میں رکھنے کے لئے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کی ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان امریکی جب کہ بھارت روسی بلاک میں ہے، ایسا نہ پہلے کبھی تھا اور نہ اب ہے اور نہ کبھی ہو گا۔ سوال تو ہمارے لئے ہے کہ ہماری آنکھیں کب کھلیں گی اور ہم لوگ کب دوست و دشمن کی پہچان کر سکیں گے۔