گھٹائیں جب بھی بنتی ہیں بادل جب بھی چھاتے ہیں تیری یاد لے کر پھر میر ے ارمان آتے ہیں عجب مستی سی چھا جاتی ہے پھولوں اور کلیوں پر ہوائیں جھو متی ہیں ا و ر سمندر گنگناتے ہیں کبھی دیکھی نہیں ہوں گی وہ تم نے ناچتی بوندیں یوں تیری یاد میں آ نسو یہ میرے د ندناتے ہیں یوں سر گو شیاں کرتی ہیں گزری باتیں کانوں میں کہ جیسے خامشی میں خشک پتے سرسراتے ہیں اسی اک پل میں چندہ بھی بڑا آوارہ لگتا ہے کہ چندہ پیچھے چلتا ہے اور بادل بھاگے جاتے ہیں کبھی دیکھا ہے وہ منظر کہ بارش میں وہ کچھ بچے کہ چھوٹی سی نظم کو کتنے اچھے سر میں گاتے ہیں ان کی یاد نے ایسے ہی دیوانہ کر کے ر کھا ہے کہ ساگر جب بھی آ تے ہیں بہت وہ یاد آتے ہیں