جاتے جاتے اتنی تو عنائیت کرتا غم دیتا پر تھوڑی سی رعائیت کرتا وقت گزر گیا جیسا بھی اچھا گزرا پیار تھا ہی نہیں جو سرائیت کرتا میرا محبوب گر وعدوں پہ ثابت رہتا ر قم میں بھی نئی کوئی روائیت کرتا اُس نے بھی ساتھ دیا شہر کے لوگوں کا میرا ہوتا تو وہ میری حمائیت کرتا بے وفائی اُس کی ساگر میری بدنامی تھی کیا زمانے سے میں اُ س کی شکائیت کرتا