تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال آپ میری اس بات سے اختلاف کر سکتے ہیں ۔کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد کی ہے کہ فاتحین نے اپنی فتح برقرار رکھنے کے لیے مل کر ایک ادارہ بنایا اقوام متحدہ یا United Nations Organisation کا نام امریکہ کے سابق صدر مسٹر روز ویلٹ نے تجویز کیا تھا۔اس کے لیے امریکہ (جو اس ادارے کا بانی ہے) کے شہر سان فرانسسکو میں کانفرنس منعقد ہوئی ،جس میں پچاس ممالک شامل تھے۔ رفتہ رفتہ اس کے ارکان کی تعداد بڑھی سب ممالک نے سوچا چلو اچھی بات ہے کہ ایک مشترکہ ادارے کا قیام اب اقوام متحدہ کے نمائندہ ممالک کی تعداد 192 ہے، مزے کی بات یہ کہ فلسطین اس کا رکن نہیں ہے کہ اسے اقوام متحدہ ملک ہی تصور نہیں کرتی تسلیم شدہ ملک نہیں ہے ۔اسرائیل ایک ملک ہے اور تسلیم شدہ ہے ،حالانکہ اس نے فلسطین کی زمینوں پر قبضہ کیا ہے ۔دنیا میں ایک ہی تسلیم شدہ ملک اقوام متحدہ کا رکن نہیں اور یہ ملک ویٹیکن سٹی ہے۔
عالمی یوم اقوام متحدہ، ہر سال 24 اکتوبرکو منایا جاتا ہے ۔یہ دن 1945 ء میں اقوام متحدہ کے منشور کے نافذالعمل ہونے کی سالگرہ کی یاد تازہ کرنے کے لیے تمام ممبر ممالک ہر سال 24 اکتوبر کو مناتے ہی مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر کے لوگوں کو اقوام متحدہ کے مقاصد اور کارناموں سے متعارف کرایا جائے ۔ اور پھر اِس عالمی ادارے کے کام کے لیے ان کی حمایت حاصل کی جائے۔ اقوام متحدہ ایک اقوام عالم کے ساتھ ڈراما ہے، خاص کر مسلمان ممالک کے ساتھ اور مسلم ممالک خود بھی اپنے ساتھ ڈراما کر رہے ہیں۔ مسلمان ممالک جوکہ کم و بیش 62ہے، ان ممالک کے مل کر ایک ادارہ بنایا تھا، جس کا نام بھی اپنے کام جیسا ہے یعنی او آئی سی ہے۔
Vote
اقوام متحدہ طاقت ور ملکوں کی ایک لونڈی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ،اس ادارے میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔اس بات کو ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،کیونکہ ویٹو کا حق پانچ ممالک کے پاس ہے ،جو دنیا کے سب سے طاقت ور ممالک ہیں، یعنی وہی جنگل کا قانون جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا ،دو ارب کے قریب مسلمان ،192 ممالک میں سے 62 سے زائد مسلمان ممالک ،ہر چوتھا فرد مسلمان ،لیکن ویٹو کا حق حاصل نہیں اس کے باوجود مسلم ممالک کو عقل نہ آئے تو ان کی عقل پر ماتم کیا جا سکتا ہے۔
ویٹو کے حق سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جمہوریت بھی پوری دنیا میں کہیں نہیں ہے بس ڈنڈا کہ اس کے زور پر کہا جاتا ہے، ہمیں جمہوری ملک کہو اور کمزور ممالک کو ایسا کہنا پڑتا ہے ،پہلی مثال افغانستان اور عراق میں بمباری ۔دوسری مثال مسئلہ فلسطین اور تیسری مثال مسئلہ کشمیر ہے ۔وزیراعظم نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سترویں اجلاس سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر حل کرانے میں ناکام رہا ہے ۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود کشمیری آج بھی حقِ خود ارادیت سے محروم ہیں اور ان کے خلاف بدترین ر یاستی آپریشن جاری ہے ،جس کے سبب ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔
Palestine
وزیراعظم نے مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ مسئلہ فلسطین کے حل میں اپنا کردار ادا کرے اور پاکستان کی خواہش ہے، کہ فلسطین اقوام متحدہ کا مستقل رکن بنے ۔عام طور پر اقوام متحدہ کا منشور یہ بتایا جاتا ہے ۔1۔ مشترکہ مساعی سے بین الاقوامی امن اور تحفظ قائم کرنا۔ 2۔ قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو بڑھانا3۔ بین الاقوامی اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور انسانوں کو بہتری سے متعلق گتھیوں کو سلجھانے کی خاطر بین الاقوامی تعاون پیدا کرنا انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے لیے لوگوں کے دلوں میں عزت پیدا کرنا۔ 4۔ ایک ایسا مرکز پیدا کرنا جس کے ذریعے قومیں رابطہ عمل پیدا کر کے ان مشترکہ مقاصد کو حاصل کر سکیں۔
لیکن اقوام متحدہ کا منشور اصل میں یہ ہے۔ 1 ۔ اقوام متحدہ کے لوگوں نے مصمم ارادہ کیا ہے کہ آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچائیں گے( لیکن مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی اجازت ہے) 2۔ انسانوں کے بنیادی حقوق پر دوبارہ ایمان لائیں گے اور انسانی اقدار کی عزت اور قدرومنزلت کریں گے( لیکن یہ قدر و منزلت کسی مسلمان کی نہیں ہوگئی ۔3۔ مرد اور عورت کے حقوق برابر ہوں گے ۔ اور چھوٹی بڑی قوموں کے حقوق برابر ہوں گے۔(ہماری کوشش ہو گئی کہ عورت کو جنس بنا کر اسے شمع محفل بنایا جائے ،بے حیائی کو آزادی کا نام دیا جائے گا ) 4۔ ایسے حالات پیدا کریں گے کہ عہد ناموں اور بین الاقوامی آئین کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو نبھایا جائے ۔ آزادی کی ایک وسیع فضا میں اجتماعی ترقی کی رفتار بڑھے اور زندگی کا معیار بلند ہو۔(کوشش ہو گئی کہ مسلمان ممالک قرض،غربت ،بے روزگاری،فرقہ پرستی کے چنگل سے نہ نکل سکیں)