تحریر: علی عمران شاہین انبیاء کرام کی سرزمینوں میں سے ایک ‘ارض شام ساڑھے چار سال سے خاک وخون میں غلطاں ہے۔ کل تک سنا پڑھا تھا کہ ”روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا۔” جانے یہ کہاوت کتنی سچی ہو لیکن آج کی دنیا ایک ایسے نیرو کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے جو اپنے ہاتھوں اپنے ملک کو مکمل کھنڈر بنا کر’اپنے عوام کو لاکھوں کی تعداد میں قتل کر کے بچی کھچی آبادی کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کرتا ہے۔آج کے اس نیروکے ہاتھوں اس کے اپنے ملک شام کے سبھی بڑے شہر بلکہ چھوٹے چھوٹے قصبے اور دیہات بھی ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں اور بشارالاسد شاداں و فرحاں بلکہ نازاں ہے کہ ابھی اس کا اقتدار مضبوط و توانا ہے۔
17ستمبر2015ء کو اپنے سب سے بڑے سپورٹرروس کے ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے فرعون زمانہ بشار الاسد کہہ رہاتھا کہ وہ کبھی اقتدار نہیں چھوڑے گا۔ایک طرف جہاں روسی صدرولادیمیر پیوٹن نے بشارکے بیان کے ایک ہی دن پہلے کھل کرکہاتھاکہ وہ بشارالاسد کی ہرلحاظ سے مدد کررہا ہے اوریہ کہ ساری دنیا کو بشارالاسدکی مدد کرناچاہیے تو دوسری طرف بشارالاسد نے بھی کھلے لفظوں تسلیم کیاکہ نہ صرف روس بلکہ ایران بھی اس کی ہرطرح سے مکمل مدد وحمایت کررہاہے۔اب تو روس باقاعدہ بمباری میں مصروف ہے تو ایران کی 10ہزار فوج اور حزب اللہ تک اپنے لائو لشکر سمیت مصروف جنگ ہے۔ان سب قوتوں کے اپنے اپنے مفادات کی بھینٹ سارے اہل شام چڑھ رہے ہیں۔
کیسی حیران کن بات ہے کہ ترکی کے ساحل پر پڑے ایک ننھے شامی بچے عیلان کردی پرتوساری دنیا ”تڑپ” اٹھی ہے ‘کئی یورپی ملکوں میں شام کے لوگوں کو پناہ دینے کی باتیں چل نکلی ہیں ۔امدادمختص کی جارہی ہے ۔ عربوں کوخاص طورپرکوساجارہاہے کہ وہ ان شامیوں کو پناہ کیوں نہیں دے رہے حالانکہ لاکھوں شامیوں کو صرف سعودی عرب پناہ دے چکاہے لیکن عقل کے اندھوں کو ان لاکھوں شامیوں کوقتل اور دربدرکرنے کااصل ذمہ دارنظر نہیں آتے’اسی شام میں لاکھوں عیلان کردی انتہائی بھیانک اورخوفناک انداز میں موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں جن کاکوئی نام تک نہیں لیتا۔
Bashar al-Assad
عیلان کردی کی تولاش صحیح وسالم مل گئی تھی ‘جسے اس کے والدنے اپنے ہاتھوں سے قبر میں تو اتاردیالیکن اس جیسے معصوم لاکھوں عیلان کردی ایسے بھی ہیں جو اپنے والدین سمیت بشارالاسد کی فوج کو روس وایران سے ملنے والے حیاتیاتی کیمیائی ہتھیاروں سے سسک سسک کراور بیرل بموں سے ٹکڑے ٹکڑے ہوکر عمارتوں کے ملبے میں دفن ہوگئے۔ انہیں کفن ملااورنہ دفن بلکہ ان کا توکسی کومعلوم بھی نہ ہوسکا کہ وہ اس دنیا سے رخصت بھی ہوئے کہ نہیں۔
عالمی میڈیا تسلیم کرتاہے کہ ساڑھے چارسال میں بشارالاسد کے ہاتھوں اس کے اپنے ملک کے پونے 3لاکھ شہری موت کے گھاٹ اترچکے جبکہ 80لاکھ بے وطن ہو چکے ہیں۔یہ بھی تسلیم کیاجاتا ہے کہ یہ اندازہ تو انتہائی محتاط ہے’ اصل تعداد تو اس سے کہیں زیادہ ہے۔ لاکھوں شامی مائیں اپنے پھول اورکلیاں سینوں سے چمٹائے اورباپ کندھے پر بٹھائے ملکوں ملکوں بھوکے پیاسے تڑپ تڑپ کر مررہے ہیں۔ کتنے ملکوں کی سرحدوں پرخاردار تاریں ان معصوم کلیوں کے چہروں کو چیر رہی ہیں۔ سرخ وسپید گلاب جیسے چہرے خون سے ترہورہے ہیں لیکن کسی کو ترس نہیں آتا۔کتوں اور بلیوں کے حقوق کی خاطر لڑنے مرنے والے اتنابھی کہنے کو تیار نہیں کہ شام میں آخر ہو کیا رہا ہے…؟ ان لوگوں کوکون مارمارکر ان کے گھرہی نہیں’ ملک ووطن سے بھگارہاہے…؟آخراس کے خلاف اقوام متحدہ میں کوئی قرارداد پاس کیوں نہیں ہوتی؟ساری دنیامل کر شام کے صدر کو افغانستان اور عراق کی طرح سبق کیوں نہیں سکھاتی…؟یہ خونی کھیل اور دنیا کو محظوظ کرنے والا تماشہ تو اس نے برسوں سے جاری کررکھاہے۔
16مارچ2011ء کاوہ دن توساری دنیا کو یاد ہے کہ درعانامی شہرکے سکول کے بچوں نے بشارالاسد کے ظلم وستم کے خلاف دیواروں پرچندجملے تحریرکردئیے تھے۔ بشارالاسدکے کارندوں کو پتہ چلاکہ یہ جرأت اور ہمت سکول کے بچوں نے کی ہے تواس سکول کے سارے بچوں کو پکڑکر 12کے ہاتھ کاٹ دئیے گئے تھے اوربعدمیں بیشترکوموت کے گھاٹ اتاردیاگیاتھا۔اس ظلم پر بچوں کے والدین اور رشتہ داروں کے علاوہ ورعاکے مقامی لوگ بھی زبان کھولنے پرمجبور ہوئے توبشارالاسد کی ہزاروں کی تعداد میں افواج کیل کانٹے سے لیس درعاکے محاصرے کے لیے پہنچ گئی۔اس شہر کامحاصرہ کرکے اس کے باسیوں کو تڑپا تڑپا کرایک ایک کرکے اور اجتماعی طورپر بھی ماراگیا ۔ جب بشارالاسد کی افواج کویقین ہوگیاکہ اب علم بغاوت بلند کرنے والوں میں سے کوئی زندہ نہیں بچااور نہ شہرمیں سوائے ملبے اور راکھ کے کچھ بچاہے توانہوںنے واپسی کی راہ لی۔ ساری دنیا تب بھی خاموش تھی’اب بھی خاموش ہے۔اس فرعونیت کے خلاف ساراشام میدان میں آکھڑا ہوا تو جو حشر درعا کے رہنے والوں کاہوا تھا’وہی سارے ملک کا شروع ہوگیا۔
ایک کروڑ 80لاکھ آبادی رکھنے والے اس ملک کی اب 2 تہائی آبادی بے گھر ہے اوردنیامیں دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑاانسانی انخلاء اور ہجرت بھی جاری ہے۔ دوسری جنگ عظیم تو دنیابھرکے بیشترملکوں نے اپنے اپنے اتحاد بنا کر لڑی تھی جس میں کرہ ارضی کایہ خطہ ہی کسی نہ کسی لحاظ سے شریک یا متاثر تھاجبکہ یہاں توایک حکمران اپنے ہی گھر کے لوگوں کو مارمارکراپنے گھر کو مکمل تباہ کرکے فاتحانہ پرچم لہرارہاہے اور اس کا سب سے بڑا ہمنوا ایران کھل کر شاذیانے بجارہاہے کہ ہم نے عراق کے بعد لبنان اور شام کابھی عملاً کنٹرول سنبھال لیاہے اور بہت جلد ہی ہمارے قدم مزید آگے بڑھیں گے اورہم سارے وسیع خطے پرقابض ہو جائیں گے۔
United Nations
اسی فتح اورقبضے کے خواب کو لے کریمن میں بھی جنگ بھڑکائی گئی اور حکومت پرقبضہ کرکے وہاں کے حکمرانوں کوبے دخل کرکے پیغام دیاگیا لیکن وہ تو سعودی عرب اور اس کے اتحاد نے میدان میں اترکر بازی کوپلٹ دیا،وگرنہ نجانے یہ آگ اور تباہی کیسے اور کس کس رخ پرآگے پھیلتی ہی جاتی۔ نائن الیون 1965ء کو پیدا ہونے والے بشار الاسد نے 10جون 2000ء کو اپنے باپ حافظ الاسد کی موت کے بعد اقتدارسنبھالا تھا۔ بشارالاسد کابڑا بھائی باصل 1994ء میں تیزرفتارکار چلاتے ہوئے ہلاک ہوگیا تھا جس کے بعدبشارالاسد ہی اگلاحکمران قرارپایاتھا۔اس نے پہلے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی توبعدمیں فوج میںکرنل کا عہدہ دیاگیا ۔اس کے بعدخودساختہ فیلڈمارشل بن کر انتہائی مختصرآبادی رکھنے والے ملک کے حکمران علوی فرقے کابھی قائدبن گیا۔ حافظ الاسد نے اپنے زمانۂ اقتدار میں ہی اپنے ملک میں آزادیٔ اظہاررائے پرانتہائی سخت پابندی عائد کر رکھی تھی اورحکومت کے مخالفین کو حکومت کے خلاف آنکھ اٹھانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ یہی طرزِ حکمرانی بشارالاسد نے بھی جاری رکھا اور پھریوں طاقت کے ساتھ خودساختہ انتخابات میں97فیصد ووٹ حاصل کرکے ”کامیابی”بھی حاصل کرتا رہا۔
حالیہ قتل و غارت گری کے بعدبظاہرتوامریکہ نے بشار الاسدکی مخالفت کی اوراس کی حکومت ختم کرنے کے لیے کوششوں کابھی باربار اعادہ کیا۔کچھ ایسے ہی پیغامات چند یورپی ممالک سے بھی آئے لیکن عملی طورپر کسی نے کچھ نہ کیا بلکہ اور تواور آج تک اقوام متحدہ میں بشارالاسد کے خلاف کوئی ٹھوس قرارداد تک پیش نہیں ہوئی اور سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ بان کی مون بھی محض رحم کی اپیلیں کرنے تک محدود دکھائی دئیے۔اس ساری صورتحال میں بشارالاسد کے حامی کھل کرمیدان میں آتے رہے۔
دوسری طرف بشارالاسداوراس کے اتحادیوں کے خلاف لڑنے والے یہ جنگجوکون ہیں…؟ان میں بھاری ااکثریت ان فوجیوں اور سپاہیوں کی ہے جنہوں نے بشارالاسد کے ظالمانہ احکامات کو ماننے سے انکار کردیاتھا اور انہوں نے الگ سے تنظیمیں بناکر آزادی کی جنگ شروع کردی تھی۔ انہوں نے اسلحہ خانوں پرقبضے کیے اور آج بھی ملک کا بڑا حصہ ان کے کنٹرول میں ہے۔ ان کے ساتھ ملک کے حکومت مخالف عوامی طبقات بھی شامل ہو گئے اور پھر پڑوسی ممال بلکہ دنیا کے کئی ممالک سے جنگجو یہاںپہنچگئے۔یوں یہ جنگ جس نے سارا ملک ہی کھنڈر بنا دیا ہے، ختم ہوتی نظر نہیں آرہی ۔ایک ملالہ پر مرنے والے سارے عالم کو پورا ملک شام2کروڑ کے قریب لٹے پٹے عوام اور کٹے پھٹے بچوں سے ڈھکا ملک شام سرے سے ہی نظر نہیں آتا۔سو نہ کسی کو یہ جنگ روکنے کی فکر ہے اور نہ مظلوموں کی مدد کی ۔آخر کیوں۔؟صرف اس لئے کہ مرنے، برباد ہونے والے سبھی مسلمان ہیں۔