تحریر :۔ انجم صحرائی گذ شتہ دنوں میرے ایک دوست کے بھتیجے کی شادی تھی وہ مجھے شادی کارڈ دینے آئے تو خاصے بوکھلائے ہوئے تھے پو چھا کیا بات ہے ؟ کہنے لگے کچھ نہیں بس تمہاری بھابھی کی چھٹی کا مسئلہ ہے ان کی اہلیہ ایک گرلز سکول میں ٹیچر ہیں تفصیل اس مسئلہ کی کچھ یوں تھی کہ ان کی اہلیہ نے اپنے سکول کی ہیڈ مسٹرس کو دس دن کی چھٹی اپلائی کی تو انہیں جو جھاڑ سننے کو ملی وہ نا قا بل حد تک اذیت ناک تھی۔ اب ان کا مسئلہ یہ تھا کہ کہ جس بچے کی شادی ہو رہی تھی اس کا والد بچپن میں ہی فوت ہو گیا تھا ان کی والدہ ایک عر صے سے بیمار ہیں میرے دوست کے کوئی اولاد نہیں بھائی کے ان یتیم بچوں کو ان کی اہلیہ نے ہی پالا پوسا اب یہ بچے جوان ہو گئے ہیں اور ان کے خاندان میں بڑے عرصے کے بعد یہ پہلی شادی ہے اور اس شادی کی تمام تر ذمہ داری میرے دوست اور ان کی اہلیہ کی تھی اہلیہ اسکول میں ٹیچر ہیں اور چھٹی مل نہیں رہی ۔۔۔میرے دوست نے ایک سانس بھری اور بولے بس یہ پریشانی ہے اور تو کوئی مسئلہ نہیں۔ میں نے ان کی پریشانی کم کر نے کے لئے قہقہہ لگایا اور ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا چھوڑو یار یہ بھی کوئی مسئلہ ہے کھودا پہاڑ نکلا چو ہا۔ میرے مذاق کر نے پر وہ تپ سے گئے اور کہنے لگے تو لیں دیں چھٹی میں نے کہا ٹھیک پریشان نہ ہوں مل جائے گی چھٹی۔
میں نے ہا می تو بھر لی مگر مجھے نہیں معلوم تھا کہ ایک ٹیچر کی رخصت منظور کرانے کا چیلنج کتنا جو ئے شیر لا نے کے مترادف ہو گا ۔میں نے خود تو ہیڈ مسٹریس صا حبہ سے رابطہ نہیں کیا لیکن محکمہ تعلیم کے ایک یو نین لیڈر کے توسط ان سے رخصت کی استدعا کی جو نا منظور ہو گئی پھر ایک اور دوست جو بڑے سینئر کلرک ہیں ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے اسکول کے کلرک سے رابطہ کر کیانہیں سمجھا یا اور راستہ بتا یا تو طے یہ ہوا کہ ٹیچر کو رخصت تو مل جائے گی مگر ایک ساتھ نہیں بلکہ اقساط میں پہلے تین بارات کے لئے اور پھر ولیمہ کے دن اور یوں متعلقہ ٹیچر کی رخصت ایڈ جسٹ ہو جا ئیں گی ۔ اور اس فار مو لے کے تحت میرے دوست کی اہلیہ کی تین دن کی رخصت منظور ہو گئی اور میں سر خرو ہو گیا ۔ بارات کے بعد وہ اسکول حا ضر ہو ئیں ۔ہیڈ مسٹریس مو جود نہیں تھیں انہوں نے ولیمے کے لئے اگلے روز کی رخصت کی درخواست آ فس میں جمع کرا دی ۔ ولیمے کی شام مجھے اپنے دوست کی کال آ ئی وہ کہنے لگے کہ تمہارے لئے سر پرا ئز ہے کہ ہمیں ولیمے کے دن کی رخصت نہیں ملی اسکول میں ہماری غیر حا ضری لگی ہے میں نے پو چھا کہ در خوست دی تھی جواب ملا کہ ہاں در خوست جمع کرادی تھی مگر رخصت نہیں ملی ۔ اور یوں یہ قصہ تمام ہوا۔
Education Department
محکمہ تعلیم کے رولز کے مطابق ایک استاد سال میں میڈ یکل ، استحقاقیہ اور سالانہ 25 چھٹیوں کے ساتھ سال کے 365 دنوں میں 325 چھٹیاں لے سکتا ہے اب اتنی چھٹیاں کیوں اور کیسے اس کی بھی مجھے سمجھ نہیں آئی کہ جس نے بھی یہ فارمولا بنایا ہے وہ کس تناظر میں بنایا مگر شیر شیر ہے انڈے دے یا بچے ہم کون ہیں پو چھنے والے ۔شا ئد کسی زما نے میں یہ سب چلتا ہو گا ۔لیکن آج ایسا نہیں ہے کاغذات میں یہ سب کچھ لکھا ہے لیکن عملا ایسا نہیں ہو رہا ۔ بے چا رے ٹیچر کے لئے خو شی ہو یا غمی رخصت حاصل کر نا ایک چیلنج سے کم نہیں ۔ میں نے غمی کی بات کی ہے آ پ حیران نہ ہوں ایسا ہی ہو تا ہے ایپکا کے ایک ذمہ دار نے بتا یا کہ گذ شتہ دنوں ایک ٹیچر کی والدہ بقضا ئے الہی وفات پا گئیں انہوں نے چھٹی کے لئے متعلقہ دفتر میں در خوست گذاری تو ان کے لئے ایک چھٹی منظور ہو ئی انہوں نے کہا کہ مر نے والی میری والدہ تھیں کم از کم مجھے اتنی چھٹیاں تو دیں کہ میں ان کی قل خوانی میں شریک ہو سکوں تو جواب ملا کہ قل خوانی ضروری تو نہیں ۔
اپنے دوست اور سینئر صحا فی ملک مقبول الہی کی بیٹی کی شادی شادی کی تقریب میں مجھے محکمہ تعلیم کے ایک قو می سطح کے لیڈر کی قر بت کا اعزاز ملا ، بات شروع ہو ئی تو کہنے لگے میں آپ کو کیا بتا ئوں آج کل چھٹیوں کی درخواست لے کر جا نے والے اسا تذہ کے ساتھ ہمارے افسران بالا رویہ اپناتے ہیں ان کا ذکر تو کیا اس کو سوچ کر دکھ اور افسوس ہو تا ہے چھٹی کی در خواست لے کر جانے والے ملاز میں کے ساتھ افسران بالا کا بر تا ئو ایسا ہو تا ہے جیسے وہ چھٹی نہیں قر ض مانگنے گئے ہوں۔
Shahbaz Sharif
دیکھیں ہمارے محکمہ تعلیم کا باوا آ دم کتنا نرالا ہے جس کا سلو گن ہے کہ نہ غم نہ خوشی بس پڑھا ئی پڑ ھائی اور پڑ ھائی ۔ میں نے ایک سنجیدہ دوست سے پو چھا کہ اسکو لوں کے اسا تذہ کو چھٹیاں کیوں نہیں ملتیں تو کہنے لگے کہ اپنے خادم اعلی صاحب کی ہدایت پر محکمہ تعلیم نے پنجاب کے اسکو لوں کی مانیٹنرننگ کے لئے ہر ضلع سے ہر مہینے حاضر اور غیر حا ضر اسا تذہ کے اعداو شمار طلب کئے جا تے ہیں اور اس تنا ظر میں ہر ضلع کا تعلیمی میرٹ بنا یا جاتا ہے جس ضلع کے اسکو لوں میں اساتذہ کی حا ضریاں زیادہ ہو تی ہیں اس ضلع کی پو زیشن میرٹ لسٹ میں اوپر آ جا تی ہے اب اس میرٹ لسٹ پر اوپر اور آ گے آ نے کا ایک ہی حل ہے کہ اسکو لوں میں اساتذہ کی حاضریاں زیادہ ہوں اور اسا تذہ کی زیادہ حا ضریاں دکھا نے کا ایک ہی راستہ ہے کہ اساتذہ چھٹیا ں نہ کریں اب زند گی کے مدو جذر میں سر کاری ملاز مین کو چھٹیوں کی ضرورت تو پڑتی ہی ہے اور وہ چھٹیاں ما نگتے بھی رہتے ہیں مگر اس کا حل تعلیمی دانشوروں نے یہ نکا لا کہ رخصت لینے والوں کی حو صلہ شکنی کی جائے اتنی اور ایسے کہ وہ چھٹیوں کے بارے سو چنا ہی چھوڑ دیں۔ اب اسی لئے کہ رخصت کے خواہشمندوں کو جو حسن سلوک افسران بالا کے دفاتر میں ملتا ہے وہ اسی تعلیمی میرٹ لسٹ میں ضلعی پوزیشن آ گے رکھنے کے لئے ہے اور یہ سب خادم اعلی پنجاب کی خصو صی ہدایات پر کیا جا رہا ہے ۔
ان کی یہ بات سن کر مجھے ہنسی آ گئی یہ بھی ہمارے ہاں ایک طریقہ واردات بن گیا ہے جو بھی غلط کر نا ہو ماورائے قانون کر نا ہو تخت لا ہور کے سر منڈ ھ دو ۔ کس نے پو چھنا ہے ؟ اب ان سے بھلا کو ئی پو چھے کہ کیا وزیر اعلی میاں شہباز شریف نے یہ کہا ہے کہ اگر کسی کی والدہ فوت ہو جا ئے تو چھٹی نہ دو اور اگر کسی کے بیٹے بھتیجے کا ولیمہ ہو تو چھٹی کی در خواست منظور کر نے کی بجا ئے غیر حا ضری لگا دو ۔ مجھے جتنے بھی مسلم لیگ ن کی ھکو مت سے اختلاف ہوں مگر میں اس بات پر یقین نہیں کر سکتا کہ وزیر اعلی پنجاب معاشرتی اقدار سے ماورا کو ئی ہدا یت جاری کر سکتے ہیں ، غم اور خو شیوں میں شرکت ہماری معاشرتی اقدار ہی تو ہیں۔