تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید ہندوستان سیکولرزم کے جس نعرے پر وجود میں آیا تھا۔ وہ نعرہ ایسا لگتا ہے کہ ہندو دہشت گردوں کے سامنے اپنی موت آپ مرا چاہتا ہے ۔جس کی وجہ سے اس ملک میں سیکولرزم کی اندھی موت ہواچاہتی ہے۔ جس کی آبیاری ہندوستان کی آزادی کے متوالوں نے کی تھی۔ اس کیفیت میں ہندوستان کی صفِ اول کی قیادت کی آتمائیں نرگ واشیوں سے پوچھ رہی ہوں گی کہ کیا ہماری آہنسا کی متوالی جاتی اس قدر بے قابو ہوگئی ہے کہ اپنے محسنوں کی کھیتیوں کو مسمار کرنے پر تُل گئی ہیں؟گاندھی ،پٹیل اور نہروکو ان لوگوں کا واضح پیغام پہنچ رہا ہے کہ وہ صرف ہندو ہیںاب سیکولر جنتا نو زائیدائوں سے یہ کہنا چھوڑ دے کہ ” تُو ہند بنے گا نا مسلمان بنے گا انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا”آج ہندوستان میں اور خاص طور پر ہندو جاتی میں انسانوں کی بجائے گائے کے بچے پیدا ہو رہے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ گائے جیسے جانور پر پوری انسانیت کی بلی چڑھانے پر ہندو دہشت گردبالکل تیار دکھائی دیتے ہیں۔ہندوستانی اقلیتوں میں بھی خاص طور پرانہیں مسلمانوںکی قربانی سب سے زیادہ من پسند ہے۔ان انتہا پسند دہشت گردوں کو اس سیکولر ملک کی لاج تک کا بھی خیال نہیں آرہا ہے۔
آج کا ہندوستان ہر لحاظ سے ہندو دہشت گردوں کیآماجگاہ بنا دیا گیا ہے۔اس ہندو دہشت گردوں کی آماج گاہ کو مغرب کی دبے انداز میںخاموشی سے مکمل مدد و حمایت بھی حاصل ہے۔کی وجہ سے ہندوستان میں مسلسل ہندو مذہبی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مسلسل واقعات نا صرف پروان چڑھ رہے ہیں بلکہ روزانہ رونما ہونے کے باوجودمغرب کی آنکھوں پر مسلم تعصب کا پردہ اور کانوں میںمسلم دنیا کے خلاف ہمارا ہی چھینا گیا تیل پڑا ہے۔ کہ انہیں نا ہی سُجھائی دیتا ہے اور نا ہی سنائی دیتا ہے۔قرآنی حُکم کے مطابق ”آنکھیں رکھتے ہیں مگر دیکھ نہیں سکتے ہیں، کان رکھتے ہیں مگر سُن نہیں سکتے ہیں۔گویا یہ اندھے ہیں بہرے ہیں”اگر کسی ملک میں یہ ہی سب کچھ جو ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے،عیسائیوں کے ساتھ ہو رہا ہوتا تو نا صرف ان کی انسانی حقوق کی تنظیمیں بلکہ ان حکومتیں بھی آسمان سر وںپر اُٹھا چکی ہوتیں۔
Gandhi
آج کے ہندوستان میں مودی کے متوالوں کی ایم کے گاندھی کے قاتل کو ہیرو بنانے کی جدوجہد کاآغاز کر کے، ان ہندو انتہاپسندوں نے ہندوستان کیکے سیاہ چہرے پر بار بار کالک ملنا شروع کر دی ہے۔ہندوستان کے باپو، گاندھی کے قاتل گوڈسے کا مجسمہ لگانے اور گاندھی کے یومِ پیدائش کی شدید مخالفت کرتے ہوئے گوڈسے کی یاد میں دن منانے کے عزم کا برملا اظہار شروع کر دیا ہے۔ہندو مہا سبھا کا کہنا ہے کہ مسٹر گاندھی نے کشمیر میں ہندوستانی جارحیت( جسکو وہ پاکستانی جارحیت کا نام دے رہے ہیں) کے وقت پاکستان کے حصے کا سرمایہ جو ہندوستان کی بد نیتی کی وجہ سے پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کرنے کی غرض سے ہندوستان نے دبایا ہوا تھاکو ریلیز کرانے کی غرض سے (مرن بر ت رکھا ہواتھا) بھوک ہڑتال کی ہوئی تھی۔اس سرمائے کے اجراء کے نتیجے میں پاکستان کی معاشی مشکلات کچھ کم ہوگئیں تھیں۔لہٰذا اس نکتہ ِنظر سے گاندھی بھی ہندوستان کے غدارِ وطن ٹہرے۔بلکہ گوڈسے جس نے گاندھی کو گولیاں مار کر قتل کیا تھا و۔اُس کودرحقیقت ہندوستان کا ہیروبناکر پیش کیا جارہا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہندو دہشت گردوں کی خواہش ہے کہ گاندھی کے مجسمے کو گرا کر اس کی جگہ گوڈسے کا مجسمہ نصب کیا جا ناہندوستان کی حب الوطنی کے عین مطابق ہے۔
اس بات پر دنیا کا ہر فرد حیران ہے کہ نریندر مودی جو ہندوستان کے موجودہ وزیر اعظم ہیں”چمکتا ہندوستان”کو اپنی منفی سوچ کے ذریعے کس مقام پر لیجانے کے خواہشمند ہیںجس کا اظہار ان کے وفادار اور حامی ہندوستان میں 2 ،اکتوبر کو گاندھی کے قتل کے سلسلے میں کی جانے والی عام تعطیل کو ختم کرانیکے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔اور اپنے باپو کے قا تل گاڈسے کو ہندوستان کا ہیرو بنا کر گاندھیکے مجسمے کی جگہ نصب کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔آج کا نہرو اور گاندھی کا سیکولر ہندوستان ہچکیاں لے رہا ہے۔
ہندوستان کو غیر ہندو وں کے ساتھ دہشت گردی میں امریکہ کی پوری پوری حمایت حاصل ہے۔امریکی ایک جانب ہندو بنیئے کی جانبداری کرنے پر مصر ہیں تو دوسری جانب تو دوسری جانب پاکستان کو پاکستان کا دوست بن کر اسی کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہاے ہیں۔ہم اور ہمارے ادارے ہیں جو اُس کے واری واری جا رہے ہیں۔ایک جانب امریکہ ہمیں ہمارے ٹیکٹیکل ہتھیار بنانے سے روک رہا تو دوسری جانب کشمیر کے مسئلے پر کسی مصالحت کرانے سے انکاری ہے۔امریکہ سے ہم بلاوجہ اپنی دوستی کا دم بھرنا چھوڑ دیں…یہ امریکہ کی قربت ہمیں ہر ہر موقعے پر نقصان پہنچاتی رہی ہے۔ اس حقیقت سے کیا کوئی انکار کرے گا کہ ہندوستانی خود تو اپنے چہرے پر کالک مل رہے ہیں۔ مگر امریکہ ہے کہ اس کے چہرے پر ملی کالک کو بھی ہیرے کی چمک کہہ رہا ہے۔امریکہ نام نہاد کی دوستی کی وجہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم بھی ا مریکہ کے پالتووںکی تعریفوں میں رُطب اللسان ہیں جیسے کہ مودی کے دہشت گرد شیو سینا کے غنڈے کہتے ہیں کہ ہم ملالہ یوسف زئی کی ہندوستان میں آمد کا استقبال اور خیر مقدم کا اعلان کرتے ہیں۔اگر انہیں مسلمانوں سے نفرت ہے تو ملالہ یوسف زئی نام کی ہی صحیح مگر مسلمان اور پاکستانی تو ہے نا؟؟؟
Hafiz Saeed
ہم کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کا دورہ بظاہر بہت کامیاب رہا۔مگر اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہوگی کہ کشمیر کاذ پر کام کرنے والے اور بے سہارا لوگوں کی خدمت کرنے والے جو امریکہ کے فنڈڈ نہیں ہیں ، حافظ سعید اور ان کے زیر نگرانی فلاحی امور انجام دینے والی تنظیم جس سے ہندوستان سب سے زیادہ خائف یعنی لشکرِ طیبہ کے خلاف کاروائی کا عندیہ دے کر اپنا سر اونچا کر کے اپنی ناکامیوں پر داد وصول کرتے ہوئے پاکستان واپس آگئے ہیں۔جو ہمارے سروں کو شرم سے جھکا چکے ہیں۔
ہندوستان کے ہر چپے میں آج بھر پور طریقے پر دہشت گردی جاری ہونے کے باوجود ہندوستان کا دفترِ خارجہ یہ کہتے ہوئے ذرا بھی شرمسار دکھائی نہیں دیتا ہے۔ کہ جہاں کہیں بھی دہشت گردی ہوتی ہے پاکستان کا نام ہی ذہن میں آتا ہے۔جھوٹ اور بد معاشی کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے۔جس کے سہارے وہ مزید کہتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کو سرکاری سرکاری پالیسی کے آلے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔مگر اس ہرزہ سرائی کا ہماری طرف سے دنیا کو کوئی بھر پور پیغام پہنچانے میں ہمارے تمام ذرائع ناکام دکھائی دیتے ہیں
امریکیوں کی ہم سے چکنی چُپڑی باتیں کرنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ وہ ہمیں افغانستان میں ہراول دستے کے طور پر استعمال کر کے۔ہماری معیشت کو مزید نُقصان پہنچا کر اپنا اُلو سیدھا کرکے ہمیں ہری جھنڈی دکھا کر یہ جا۔۔وہ جا!!ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ امریکیوں کو بھی ہماری معاشی رہگذر کی تعمیر سے کوئی خوشی نہیں ہو رہی ہے۔مگر وہ مجبور اس وجہ سے ہے کہ وہ گھٹنوں گھٹنوں افغانستان کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور اس کا سہارا ہندوستان نہیں بلکہ ہم ہی بن سکتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ امریکی ہم سے بھی ظاہری ناطہ فی الوقت توڑنے کے موڈ میں نہیں ہیں ۔کیونکہ پاکستان سے ناراضگی مول لینااس وقت امریکہ کے حق میں نہیں ہے۔
Shabbir khurshid khurshid
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.com