تحریر: حسیب اعجاز عاشر ہر دور میں محققین اوراہل ادب کے اردو زبان کی ابتداء کے حوالے سے نظریات، مختلف جغرافیائی حوالوں میں تقسیم رہے ۔مگر فروغِ اردو ادب کے حوالے سے بغیر دو رائے کہ پاکستان کس صوبہ پنجاب ایک سنہری تاریخ رقم کر رہا ہے اور سرفہرست زندہ دلانِ شہر لاہور میں توبے شمار ادبی تنظیموںکے زیرِ اہتمام ادبی نشستوں اور محافل کے انعقاد کا سلسلہ پورے آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔
ایسے ہی” چوپال ادبی تنظیم”بھی گزشتہ چند سالوں سے فروغ اردو ادب میں اپنا مخلصانہ کردار ادا کرنے میں مصروفِ عمل ہے ،کئی کامیاب و یادگار محافل کا سہرا انکے سرہے،چند روز قبل بھی ‘چوپال ادبی تنظیم ” کے زیر اہتمام الحمرا ہال کی ادبی بیٹھک میں محترم احمد ساقی کے پہلے مجموعہ کلام ”کھنکتی خاک” کی تقریب پذیرائی کے حوالے سے ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریاکی زیر صدارت ایک خوبصورت و شاندار ادبی تقریب بعنوان ”پروفیسر احمد ساقی کے نام ایک یادگار شام”کا انعقاد کیا ۔مہمانانِ خصوصی میں غلام حسین ساجد، اختر شمار، عباس تابش، کیپٹن عطا محمد خان اور ایم زیڈ کنول شامل تھے۔
جبکہ ڈاکٹر فخر الحق نوری، محترمہ بشری ناز، قائم نقوی، پروفیسر منیر ابن رزمی، زاہد مسعود، شاہد چوہدری، کاشف مجید،اظہر اقبال اظہر، ناہید شاہد، حسن عباسی اور امین انجم کو بحثیت مہمانانِ اعزازی مدوح کیا گیا،تقریب دو حصہ پر مشتمل تھی حصہ اول میں صاحب کتاب کی فن و شخصیت کے حوالے سے مقالے پیش کئے گئے اور جبکہ دوسرے حصہ میں مشاعرے کا انعقاد کیا گیا ۔نظامت کے فرائض سخنور نجمی نے باخوبی سر انجام دیئے،سخنور نجمی کی دعوت پر صدر محفل ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا اور صاحب کتاب احمد ساقی سٹیج پر جلوہ افروز ہوئے جبکہ پروفیسر غلام حسین ساجد ، عباس تابش، قائم نقوی، اختر شمار، ایم زیڈ کنول،بشری ناز اور زاہد مسعود بھی سٹیج کی رونق بڑھا رہے تھے۔ایم زیڈ کنول اور مقصود چغتائی نے احمد ساقی کو جبکہ پروفیسر افتخار نے ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا کو پھولوں کے گلدستے پیش کئے۔تقریب میں اہل ذوق خواتین و حضرات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کی سعادت جناب نعمان حمید حاصل نے کی ،پروفیسر امین انجم نے احمد ساقی کی نعت ”وہ ایک خوشبو کہ جس کی کوئی مثال نہیں۔۔۔میرے حضورۖ کی پوشاک سے نکلتی تھی”کوپرسوز ترنم کیساتھ پیش کیا۔ جسے حاضرین نے والہانہ عقیدت و محبت سے سماعت فرمایا ۔اختر شمار نے ”کھنکتی خاک” کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے اسلم کولسری کے بعد احمد ساقی وہ مرد سخن ہیں جنہوں نے شہر کی لاج رکھی ہے۔
انکی زبردست شاعری پڑھ کر روح سرشار ہو جاتی ہے۔ایم زیڈ کنول نے اپنے مقالے بعنوان” درِ امکان کا ساقی احمد ساقی” پیش کرتے ہوئے کہا کہ احمد ساقی کے پُراثر کلام میں جمال و کمال بھی ہے اور شمس و قمر کی رعنائیاں بھی جو قاری کی بھرپور متوجہ حاصل کرتا ہے،انکی شاعری درحقیت نسل نوع کی معمار بھی ہے انہوں نے اپنی ادبی تنظیم جگنو انٹرنیشنل کی جانب سے صاحب کتاب احمد ساقی کومبارکباد پیش کی اور ادبی تنظیم چوپال کی ادبی خدمات کو بھی سراہا۔زاہد مسعود نے محفل کے جمود کو توڑا اور احمد ساقی کی فن و شخصیت کے حوالے سے اپنی دلچسپ و مزاحیہ تحریر سے حاضرین کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیں،اپنے دیرینہ و پختہ تعلقات کے تذکرہ کیا اور پہلے مجموعہ کلام کی اشاعت پر دلی مبارکباد بھی پیش کی۔ناہید شاہد نے بھی اپنے اظہار خیال میںکتابِ ماضی کے اوراق پلٹے اور اپنے احمد ساقی کیساتھ ٤٠۔٣٥ سالہ پُرانے یادگارتعلقات کا ذکر کیا انہوں نے صاحب کتاب کو خوبصورت ادبی کاوش پر مبارکباد پیش کی اور مزید کامیابیوں کے لئے دعائیہ کلمات بھی پیش کئے۔
Poetry
غلام حسین ساجد کا کہنا تھا کہ احمد ساقی کی فنی جدت نے حیران کر دیا ہے،ہر غزل کا ہر مصرعہ خوب و کمال ہے اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ہو۔نئی غزل کے سپہ سالار عباس تابش نے ”کھنکتی خاک” کو لمبی ریاضت کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انکے کلام میں ہرقسم کا اظہار ہے،انکے اشعار میں ضربِ مثل بننے کی پوری صلاحیت موجود ہے یہ اشعار ان شاء اللہ تعالی ضرور سفر کرتے رہے گے۔احمد ساقی کا کلام”روداد مجھ سے دل کی سنائی نہیں گئی” امین انجم نے پُرترنم پیش کیا جو سماعتوں کو تسکین کا باعث بنا۔۔احمد ساقی نے تحسینی کلمات پیش کرنے پر تمام احباب سے اظہار تشکر کیا اور چوپال کی ادبی کمیٹی خصوصاً محمد راشد مرزا، سلمان اور نعمان کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کیا جن کی پُرخلوص اور بے غرض کاوشوں نے محفل کو عملی شکل دی۔انہوں نے اپنے ادبی سفر پر روشنی ڈالی اور چند فرمائشی غزلیں بھی پڑھیں ،سامعین ”واہ،واہ۔سبحان اللہ” اور تالیوں سے اظہارِپسندیدگی کرتے رہے۔صدرِ محفل ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا نے کہا کہ احمد ساقی با ادب،بااخلاق اور باصلاحیت شخص ہیں،انکی انکساری و عاجزی ایک طرف مگر شاعری میں دیوانگی کی انتہا ہے۔انکا کلام دلوں کو چھو لیتا ہے جو ہمیشہ اہل ذوق احباب کے لئے مرکزِ نگاہ رہے گا۔
محترم غلام حسین ساجد کی زیرِصدارت تقریب کے دوسرے حصے ”مشاعرے”کے آغاز ہی میں رضوان شیخ اور حکیم عاکف ریاض نے اپنے دلکش کلام سے محفل میں ادبی رنگ بھر دیا اور بھروپور داد و تحسین کے حقدار بنے۔کویت سے تشریف لائے معروف شاعر خالد سجاد کی خصوصی درخواست پر انہیں مائیک پر مدوح کر لیا گیا انہوں نے اپنی دل موہ غزلوں سے محفل کو چار چاند لگا دیئے سامعین نے دل کھول کر داد دی۔ویسے بلاشبہ ناظم محفل سخنور نجمی نے تمام شعراء کہ ادبی قد کاخوب خیال رکھا جسکے سبھی انکے مداح ہوئے،اُنکی اچھی نظامت ہی درحقیقت سامعین کے لئے تقریب میں دلچسپی کا باعث رہی۔خوش لحن شاعر انعام کبیر کے کلام سے بھی سامعین بہت لطف اندوز ہوتے رہے۔پروفیسر امین انجم نے اپنا باکمال کلام پُرترنم پیش کر کے سبھی کو خوب محظوظ کیا۔
محمد خاور، سلمان رسول نے بھی اپنے اپنے منفرد کلام و خوبصورت لہجے سے تقریب میں خوب رنگ جمایا۔بشری ناز کی پنجابی میں پیش کی گئیں غزلوں اور نظم میں جدیدیت،روانی اور سادگی دلوں کو خوب بھا گئی۔حسیب اعجاز عاشرنے پنجابی کے چند اشعار پر ہی اکتفا کیا۔شہباز احمد شاہین اور اعجاز ساحرکے تازہ اشعار نے محفل کی ادبی چمک دمک میں مزید اضافہ کر دیا۔اظہر اقبال اظہر اور احمد خیال نے بھی مشاعرے کے سفرِ عروج کا خوب خیال رکھااور اپنے کلام سے داد بٹورتے رہے۔یہ سوہانی محفل اپنی اختتام کی جانب بڑھ چکی تھی اور نامور شاعرہ ایم زیڈ کنول نے صاحب کتاب احمد ساقی کی فن و شخصیت کے حوالے ایک خوبصورت غزل پیش کی جسے بہت پسند کیا گیاانہوں نے ایک غزل بھی سماعتوں کی نذر کی۔
انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور صاحب کتاب محترم احمد ساقی کو دعوت سخن دیا گیا،احمد ساقی اپنے کلام میں خوبصورت انداز و مہارت ،نہایت دھیمے لہجے،وسعت، انفرادیت، معنویت کے باعث حلقہ شعرو ادب میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں اور اس تقریب میں بھی سامعین انکے پیش کئے گئے رنگ کمال و کلام سے بہت متاثر ہوئے اور تالیوں کی گونج سے مسلسل پسندیدگی کی سند پیش کرتے رہے۔صدرِ مشاعرہ غلام حسین ساجد کسی تعارف کے محتاج نہیںتقریبا ٢١تصانیف کے خالق ہیں ،نے بھی لطافت سے مالا مال اپنے کلام سے تقریب کے وقار کو بلند ترین کر دیا۔مہمانان خصوصی کے ہمراہ خصوصی تصویری سیشن اورٹی پارٹی کے ساتھ یہ ادبی محفل حسین یادیں چھوڑتی ہوئی اپنے اختتام کو پہنچی۔محترم احمد ساقی کی نظم ”مجھے جرم ضعیفی میں” کے چند مصرعے نذرِ قارئین۔۔۔
کسی ایسے شکستہ خاک کوزے کی طرح درگاہ میں رکھا گیا ہے کہ جس میں آب کا قطرہ کبھی ٹھہرا نہیں کرتا جہاں غیرت کا بادل بھی کبھی گرجا نہیں کرتا حمیت کی کوئی بارش جہاں برسا نہیں کرتی تشخص کا کوئی کانٹا جہاں زخمی نہیں کرتا اسی جرم ضعیفی نے