آسائشوں نے زیست کو مشکل بنا دیا

Facilities

Facilities

تحریر: ابنِ نیاز
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

اقبال کا یہ شعر اور میرا آج کا موضوع بظاہر ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں لیکن در حقیقت ایک ہی ہیں۔ اس مردِ مومن کی وفات 1938 میں ہوئی جب نہ مشینیں تھیں اور نہ ان سے حاصل ہونے والی آسائشیں۔ بظاہر تو زندگی کی گاڑی صرف گاڑیوں کی اور بجلی کی مرہونِ منت تھی باقی سب اسی طرح تھا۔ لیکن مرد قلندر اقبال کی پیش گوئی ہماری آج کی زندگی میں موجود آسائشوں کی طرف ایک واضح اشارہ ہے۔ کیا کچھ میسر نہیں ہمارے پاس۔ کہاں سفر کے لیے گھوڑے، اونٹ استعمال کیے جاتے تھے اور اب کہاں سینکڑوں میلوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے۔

کہاں تو ہم کسی کی تیمارداری کرنے یا کسی کے ساتھ تعزیت کرنے کے لیے وقت نہ ہونے کے باوجود خود چل کر جاتے تھے اور اس کی بہترین طریقے سے دلجوئی کرتے تھے۔ لیکن آج اس موبائل اور ٹیلیفون کی وجہ سے وقت ہوتے ہوئے بھی گھر سے ہی اس کا حال احوال پوچھ لیتے ہیں اور تسلی کے دو منافقانہ بول لیتے ہیں کہ دل میں یہی ہوتا ہے کہ نہ بیمار ہوتا یا نہ مرتا ، نہ ہمیں یہ کال کرنی پڑتی۔ عام زندگی میں حال احوال پوچھنا تو بہت دور کی بات ٹھہری۔

ٹیلی ویژن نے بھی ہماری زندگی میں جو سہولیات پیدا کی ہیں کہ ہم گھر بیٹھے دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے واقف ہوتے رہتے ہیں لیکن انتہائی افسوس ہوتا ہے جب ہمیں یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارے ہمسائے میں کوئی کتنے دنوں سے بھوکا ہے۔ اس کے گھر میں کوئی پریشانی ، کوئی مسلہ تو نہیں ہے۔ جب کہ اللہ کے رسول ۖنے تو ہمسائے کے حقوق کے بارے میں اتنی بار خیال رکھنے کا کہا حتٰی کہ صحابہ کو یہ شک ہونے لگا مبادا کہیں وراثت میں بھی ہمسائے کا نام نہ شامل ہو جائے۔ اور ہمیں موبائل، ٹیلی ویژن، میڈیا نے اتنا تن آسان بنا دیا ہے کہ حق ہمسائیگی تو دور کی بات ہمیں ہمارے بغل میں بیٹھے ہوئے فرد سے بھی لاتعلقی اختیار کرنی پڑتی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ آج کل کی جو آسائشیں ہمیں میسر ہیں ان سے ہماری زندگی میں آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ ہمیں وہ کام جن کو کرنے میں دن ، مہینے لگ جاتے تھے اب دنوں ، گھنٹوں میں ہو جاتے ہیں۔ جہاں ہمیں سمندر پار اپنے دوست، رشتہ داروں سے سلام دعا کرنے میں یا ان کو کوئی چیز پہنچانے میں مختلف تجاویز زیرِ غور لائی جاتی تھیں، آج سیکنڈز میں ہر چیز ان کی پہنچ میں ہوتی ہے بس ایک کلک کی دیر ہوتی ہے۔ سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے، لیکن آج کس کو سفر میں کامیابی ملتی ہے کہ وہ پشاور سے کراچی تک کا سفر بنا رکے گھنٹوں میں طے کرلیتا ہے۔ جب کہ پہلے جب کوئی اونٹ، گھوڑوں پر سفر کرتا تھا تو ہر آٹھ دس میل کے بعد کہیں نہ کہیں رکتا تھا۔

Difficulties Life

Difficulties Life

کوئی نہ کوئی مل جاتا تھا اور اسکے رکنے کی وجہ سے اس کے علم میں اضافہ ہی ہوتا تھا کہ کسی نہ کسی سے کسی موضوع پر بات چیت ہو تی تھی۔اس کے سفر کے حوالے سے اس کو کچھ اشارے مل جاتے تھے، کوئی ہدایات مل جاتی تھیں، یوں اس کا سفر بخیر و خوبی بھی طے ہو جاتا تھا اور ساتھ میں کامیابی بھی اس کے قدم چومتی تھی۔آج مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ ہم اپنوں سے دور ہیں، کوئی ہماری کسی مشکل میں ہمارا ساتھ نہیں دیتا اگر دیتا بھی ہے تو صرف اتنا کہ چند لمحے بیٹھ کر ہمیں طفل تسلی دے گا، اور جب کچھ جانی، مالی مدد کی ضرورت پیش آئے گی تو ایک نہ ہزار سکھ کے مصداق کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لے گا۔

ہماری صحت خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ پہلے اگر پانی میں کوئی مسلہ ہوتا تھا تو پانی کو ابال کر پیتے تھے۔آج جگہ جگہ منرل واٹر موجود ہے۔جس میں منرل نام کو نہیں۔ بظاہر وہ پانی صاف تو ہوتا ہے لیکن نمکیات کے ہمارے جسم میں نہ جانے سے ہمارا جسم ڈھلکتا جا رہا ہے۔ پہلے لکڑیوں پر کھانا پکتا تھا، مٹی کی ہانڈی ہوتی تھی، اور لکڑی کا چمچ ہوتا تھا۔ ان چیزوں سے پکے ہوئے کھانے کا اپنا ایک منفرد ذائقہ ہوتا تھا۔ جو مرضی ہوتی تھی پکاتے تھے، کھاتے تھے۔ خالص دیسی گھی، مکھن، ملائی وغیرہ۔ لیکن صحت کا شاذو نادر ہی کوئی مسلہ پیش آتا تھا۔اب کبھی تو کھانا پکاتے ہوئے لوہے کے پگھلنے کا مسلہ،پانی کی پلاسٹک کی بوتل کا مسلہ، اوون میں نقصان دہ شعاعوں کا مسلہ۔ سب کے سب صحت کے لیے حد درجے نقصان دہ۔ اوپر سے فاسٹ فوڈ نے بظاہر تو کھانے کا وقت بھی کم کر دیا ہے ، لیکن ساتھ میں بے وقت بھی کر دیا ہے۔ جب جی چاہا، کسی ریسٹورنٹ میں گھُس گئے، برگر، سینڈوچ وغیرہ کھا لیا۔ نہ وقت کھانے کا، نہ ہضم کرنے کا۔ سونے پہ سہاگہ گھر میں پکانے کی بجائے ہوٹل میں کھانے کو بھی ترجیح دی جانے لگی ہے جہاں صفائی کی حالت ناقص، پکانے میں کوئی احتیاط نہیں، پکنے والی چیز کتنی پرانی ہے، یعنی وقتِ استعمال کے بعد بھی استعمال ہو رہی ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایسے میں بد پرہیزی، بد ہضمی نہ ہواور بیماریاں ہمارے جسم کو نہ چاٹیں تو کیا کریں۔

ان آسائشوں نے ہماری زندگی کو حقیقتاً اجیرن کرکے رکھ دیا ہے۔ کہاں انسان کی اوسط زندگی سینکڑوں سال اور کہاں ستر اسی سال وہ بھی بیماریوں اور مسائل سے پْر۔ہمیں اپنی زندگی کو پھر سے سکون بخش بنانے کیلیے، صحت مند بنانے کے لیے رشتہ داروں سے لے کر عام مسافر تک کے حقوق کی ادائیگی کے لیے ہمیں وقت نکالنا ہو گا۔نہیں تو ہماری زندگی بس اتنی ہی رہ جائے گی جس میں ہمیں یہ تو علم ہو گا کہ کب جاگے ہیں اور کب سوئے ہیں، لیکن کیا کچھ کرتے رہیں سارا دن، کچھ بھی علم نہیں ہو گا کہ لگی بندھی روٹین بند آنکھوں سے بھی مکمل ہو جاتی ہے۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

Ibn e Niaz

Ibn e Niaz

تحریر: ابنِ نیاز