تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی دین میں توبہ کا ایک اہم مقام ہے ‘راہ حق کے مسافر سب سے پہلے توبہ کا راستہ اختیار کرتے ہیں، توبہ راہ گم شدہ لوگوں کے لیے استقامت کی کلید ہے ‘گناہوں سے تائب ہونا اور عیبوں کو جاننے والے اور عیبوں کو چھپانے والے کی طرح رجوع کرنا راہ سلوک کا پہلا زینہ ہے ‘راہ حق کے مسافر اِسی کو مشعلِ راہ سمجھتے ہیں اور انبیاء اِسی کے ذریعہ سعادت پاتے ہیں، ہمارے جدامجد حضرت آدم علیہ اسلام کے لیے توبہ ہی نجات اور بلندی درجات کا باعث بنی، بشر سے خطا یا گناہ سرزد ہو جانا کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے کیونکہ خطا بشری تقاضہ ہے ،جب ہمارے باپ حضرت آدم سے خطا ہوئی تو آپ نے عرصہ دراز تک ندامت کے آنسو بہائے اور پھر آپ کی توبہ قبول ہوئی، انسان کی جبلت میں دونوں خصلتیں پائی جاتی ہے خیر کی خصلت اور شر کی خصلت بھی ،اب یہ انسان پر منحصر ہے وہ انسان بنے یا شیطان کا ساتھی بن کر گمراہی اور گناہ کے سمندر میں غرق ہو کر خدا سے دور ہو جائے۔
حضرت حسن سے مروی ہے جب حضرت آدم علیہ اسلام کی توبہ بارگاہِ الٰہی میں قبول ہوئی تو فرشتوں نے اُنہیں مبارک باد دی حضرت جبرائیل علیہ اسلام اور میکائیل علیہ اسلام ان کے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کی توبہ قبول فرمائی اور آپ کے دل کو سکون بخشا تو ہمارے جد امجد نے فرمایا اگر اِس توبہ کے بعد بھی قیامت کے روز مجھ سے سوال ہوا تو کیا ہوگا تو خدائے بزرگ برتر نے وحی نازل فرمائی کے اے آدم تیری اولاد کو تجھ سے مصیبتیں بھی وراثت میں ملی ہیں اور توبہ بھی اِن میں سے جو شخص مجھے پکارے گا میں اُس کی پکار سنو گا جس طرح تیری پکار سنی ہے اور جو شخص مجھ سے مغفرت کا خواستگار ہو گا میں اُس کی مغفرت کر نے میں دیر نہیں کروں گا اِس لیے کہ میں قریب ہوں ،مجیب ہوں ،اے آدم میں توبہ کرنے والوں کو اُن کی قبروں سے ہنستے اور بشارت سنتے ہوئے اٹھائوں گا اِن کی دعا وقبول ہو گی۔
قرآن مجید میں اکثر جگہوں پر توبہ کا ذکر ہے (سورة نحل آیت نمبر 119) پھر جنہوں نے نادانی سے برا کام کیا پھر اس کے بعدتوبہ کی اور سنور گئے تو تمھارا رب اُس کے بعد بخشنے والا مہربان ہے، (سورة طہٰ آیت نمبر 82) اور جو توبہ کرے اور اﷲ پر کامل ایمان لائے اور اچھے کام کرے پھر سیدھے راستے پر رہے تو بیشک میں بخشنے والا ہوں، (سورة فرقان آیت نمبر 70) مگر جس نے توبہ کی اور (اﷲ پر کامل) ایمان لایا اور اچھے کام کئے تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اﷲ بھلائیوں سے بدل دے گا اور اﷲ بخشنے والا مہربان ہے، حدیث مبارکہ میں توبہ کی فضیلت اِس طرح بیان کی گئی ہے حضرت عبداﷲ بن مسعود سے روایت ہے رسول کریم ۖ نے فرمایا یقینًا اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے۔
Allah
اگر کسی شخص کی سواری جس پر کھانے پینے کا سامان لدا ہو کسی صحرا میں گم ہو جائے اور وہ شخص تلاش کرتے کرتے تھک جائے اور پھر مایوس ہو جائے پھر اچانک وہ سواری اُسے مل جائے اِسی وقت اُسے اس سواری ملنے کی کتنی خوشی ہو گی اﷲ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ سے (جب وہ اﷲ کی طرف رجوع کرتا ہے اور واپس لوٹ آتا ہے) اِس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے۔حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں رسول کریم ۖ نے فرمایا جب بندہ گناہ کر بیٹھتا ہے اور پھر کہتا ہے اے میرے مولا میں نے گناہ کیا ہے تو مجھے معاف کردے تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کیا میرے بندے کو معلوم ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ معاف بھی فرماتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے؟ اچھا اسی بات پر میں نے اسے معاف کیا کچھ عرصہ کے بعد پھر اس سے گناہ سرزد ہو جاتا ہے اور وہ اﷲ تعالیٰ سے معافی کا طلبگار ہوتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ پھر اُسے معاف کر دیتا ہے کچھ مدت کے بعد پھر وہ گناہ کرتا ہے اور پھر کہتا ہے اے میرے رب میں نے ایک اور گناہ کرلیا تو مجھے بخش دے اﷲ تعالیٰ کی رحمت یہ گواراہ نہیں کرتی کہ اس کا بندہ جو اس کے دربار میں کھڑا ہے خالی ہاتھ جائے چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندے کو معاف کردیا (بخاری شریف)۔تاریخ اسلام کا دامن توبہ کے لازوال اور ایمان افروز واقعات سے بھرا پڑا ہے ایسا ہی ایک واقعہ سرتاج الابنیا ۖ کے دور میں پیش آیا، شہنشاہ دو جہاں ۖ کی رسالت کی کرنیں جب اہل عرب پر پڑی تو وہ گمراہی جہالت اور عیاشی کے عمیق گڑھوں میں غرق تھے لیکن آپ کی آمد کے بعد تھوڑے ہی عرصہ میں اسلام کی پر نور شعاعوں سے اہل عرب کے سینے ایمان سے منور ہو گئے۔
اہل عرب جو بات بات پر گناہ کے مرتکب ہوتے تھے اب ان کا ایمان اِس قدر مضبوط تھا آندھی اور طوفان سے پہاڑ تو اپنی جگہ سے ہل جائیں لیکن ان کے ایمان اور تقوی کو کبھی بھی جنبش نہ ہوں، سرورکائنات ۖ صحابہ کرام کے جھرمٹ میں مسجد نبوی میں جلوہ افروز ہیں ،آپ لوگوں کو اسلام کی تعلیمات دے رہے ہیں کہ اتنے میں ایک باپردہ خاتون مسجد کے دروازے سے داخل ہوتی ہیں، وہ شرم و حیا کا پیکر بنی رسول کریم ۖ کے پاس آتی ہے اور عرض کرتی ہے یا رسول اﷲ ۖ مجھ سے زنا سرزد ہو گیا مجھے آپ پاک کردیں، اِس خاتون کے بلند ایمان کی حالت دیکھیں کہ اُس کے جسم کے رگ رگ میں اور خون کے قطروں میں ایمان کی خوشبو اور حرارت رچی بسی تھی اُسے پتہ تھا کہ پاکیزگی حاصل کرنے کامطلب ہے پتھروں کی بارش سے چمڑی اُدھڑ جائے گی ،جسم سے خون کے فوارے نکلیں گے ،تمام اعضا کو توڑ دیا جائے گا ،ہڈیوں ٹوٹ جائیں گی۔
Muhammad PBUH
جسم پھٹ جائے گا۔یسی موت اور تکلیف کے تصورسے ہی پتھر سے پتھر دل انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن اس ایمان سے بھر پور عورت کی جرات اور بہادری دیکھیں کے اُس نے خود کو سزا کے لیے پیش کردیا، اُس عورت نے عرض کی یا رسول اﷲ ۖ میری غلطی کی وجہ سے ایک نئی روح دنیا میں آنے والی ہے میں حاملہ ہوں ،نبی کریم ۖنے فرمایا جائو جب تمھارے بچے کی ولادت ہو جائے پھر آنا، رحمت دو جہاں ۖ کی رحمت اور شفقت دیکھیں کہ آنے والے بچے کا کیا قصور ہے اِس لیے خاتون کو واپس بھیج دیا بچے کی ولادت کے بعد وہ خاتون پھر آقائے دو جہاں ۖ کی خدمت میں حاضر ہوئی رسول کریم ۖ نے بچے کو دیکھا تو آپ کا دل معصوم بچے کے لیے تڑپ اٹھا پوچھا اِس کے دنیا سے جانے کے بعد اِس معصوم کا کون سنبھالے گا، فرمایا واپس جائو اور اِس بچے کو دودھ پلاتی رہو جب اِس کا دودھ چھڑا دو تو میرے پاس آنا، عورت جو شوق دیدار الٰہی میں سرشار تھی اپنے بچے کو دودھ پلانے کے ساتھ روٹی کھلانا بھی جلدی سکھا دی۔
کیونکہ وہ جلدی خود کو پاک کرنا چاہتی تھی توبہ کی لذت سے ہمکنار ہو نا چاہتی تھی، بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھمایا اور رسالت ماب کی بارگاہ میں حاضر ہو گئی۔سرورکائنات ۖ نے بچے کو پکڑا اور فرمایا کون ہے جو اس بچے کی کفالت اپنے ذمہ لے گا وہ جنت میں اِن دو انگلیوں کی طرح میرے ساتھ ہو گا، ایک انصاری نے یہ سعادت فوری سمیٹ لی ایک بچے کو ماں سے لیتے وقت رحمت دو جہاں ۖ اداس تھے، اُس عورت کو شدت سے انتظار تھا کہ کب میرا جسم گناہ سے پاک ہو اور توبہ کے اعزاز سے سرفراز ہو، پھر اُس عورت کو گناہ سے پاک کردیا گیا اُس عورت کو حضرت خالد بن ولید نے جب زور سے پتھر مارا تو خون کا چھینٹا ان کے چہرے پر آپڑا تو حضرت خالد نے عورت کو برُا بھلا کہا ، جب یہ بات شافع محشر ۖ تک پہنچی تو فورًا بولے چپ رہو اے خالد قسم ہے۔
اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس خاتون کی توبہ ایسی ہے کہ اگر ناجائز ٹیکس وصول کرنے والا بھی ایسی توبہ کرتا تو اس کی بھی مغفرت ہو جاتی، پھر محبوب خدا ۖ نے خود اُس ایمانی عورت کا جنازہ پڑھایا۔حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا اے اﷲ کے نبی آپ ۖ اِس پر نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں حالانکہ اِس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا؟ تو نبی رحمتۖ، رحمت دو عالمۖ، ساقی کوثرۖ، سرورکائناتۖ، یتیموں کے آسمان اور نبیوں کے سردار ۖ نے ارشاد فرمایا ”اِس عورت نے ایسی خالص اور حقیقی توبہ کی ہے کہ اگر اسے ستر باشندگان مدینہ پر تقسیم کر دیا جائے تو ان سب کی بخشش ہو جائے کیا تو نے اِس عورت سے بڑھ کر کسی کی توبہ دیکھی ہے جس نے اپنی جان خوشی کے ساتھ اﷲ کے لیے قربان کردی ہو؟”