تحریر: علی عمران شاہین عالمی طاقتوں کی کھلی منافقت اور باہر کی کھلی امداد سے بشارالاسد اپنے مخالف عوام پرآج تک بے پناہ ظلم ڈھانے میں مصروف ہے لیکن کوئی اس کا بال بیکا کرنے کو تیار نہیں۔ کہنے کو امریکہ اور ساری بغربی طاقتیں بشار الاسد کے خلاف ہیں لیکن وہ پاکستان ،یمن ، صومالیہ ،افغانستان ،عراق وغیرہ میں تو ڈرون حملے کرتے اور بے گناہ لوگوں کو بھی بڑے پیمانے پر مارتے ہیں لیکن 4سال میں بشار الاسد ،اس کے ساتھیوں یا ملکی و غیر ملکی حامیوں پر کبھی کوئی حملہ نہیں کیا جاتا۔کیسی منافقت اور کامیاب ڈرامہ بازی ہے بلکہ مداری پن ہے کہ یہ سب دنیا کو کھلی آنکھوں بے وقوف بناتے اور سب دیکھتے، سنتے، جانتے خوب خوب بے وقوف بن جاتے ہیں۔
اسی یورپ اور امریکہ کی منافقت کی توحدیہ ہوگئی کہ انہوں نے بشارالاسدکواقتدار سے بے دخل کرنے کے بجائے شام کے چندہزار شہریوں کو پناہ دینے کا زبانی کلامی اعلان کرکے ساری دنیا سے دادوتحسین وصول کرناشروع کردی۔ان انسانیت دشمنوں نے ساتھ ہی ساتھ سعودی عرب اوردیگر عرب ریاستوں کے خلاف زبردست طوفان کھڑا کرناشروع کردیاکہ وہ پڑوسی اورمسلمان ہونے کے باوجود اپنے ہمسایوں اور مسلم بھائیوں کو پناہ دینے پرتیار نہیں۔دنیاکی تاریخ اٹھاکردیکھی جائے توخوب خوب اندازہ ہوتاہے کہ دورِ حاضر کی ہی کتنی دھائیوں سے دنیا بھر میں پناہ گزینوں ‘ مہاجرین اورآفت زدگان کی سارے عالم میں سب سے زیادہ امداد سعودی عرب’متحدہ عرب امارات اور قطرکرتے ہیں لیکن ان ملکوں کے خلاف ایسی منظم مہم چلی کہ ان کی ساری تاریخ ہی نیست ونابود کرکے رکھ دی گئی۔
اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب کو بھی یہ بیان دیناپڑا کہ جب سے شام کابحران شروع ہواہے’ سعودی عرب اپنے ہاں 25لاکھ سے زائد شامیوں کو پناہ دے چکاہے۔ سعودی حکام نے کھل کر کہاکہ ہم شام کے تارکین وطن کوپناہ گزین نہیں ‘اپنابھائی سمجھتے ہیں ۔اسی لیے ہم نے کسی شامی بے گھر کواپنے ہاں پناہ گزین قرار دے کر اس کی فہرست نہیں بنائی بلکہ اپنے ملک جیسا شہری تسلیم کیا ہے۔ سعودی عرب نے ان لوگوں کو روزگاربھی دیا۔ان کے بچوں کے لیے تعلیم وتربیت کابھی بندوبست کیا۔ اس پرمتحدہ عرب امارات کے ایک پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر عبدالخالق عبداللہ نے کہاکہ اگرخلیجی ریاستیں نہ ہوتیں توان لاکھوں افراد کی حالت اورزیادہ خراب ہوتی۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین برسوں میں متحدہ عرب امارات نے ایک لاکھ 60 ہزار سے زائدشامیوں کو قبول کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ الزام لگاناغلط ہے کہ خلیج نے کچھ نہیں کیا۔
Chemical Weapons
اس پر کنگ سعود یونیورسٹی ریاض کے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر شیخ خالد الدخیل نے کہاکہ بشارالاسد کی فوجیں کیمیکل ہتھیار استعمال کررہی ہیں اور شہری علاقوں پر بمباری کر رہی ہیں جس کی وجہ سے لوگ فرار ہورہے ہیں لیکن ایسا کیوں ہے کہ صرف خلیج کے حوالے سے ہی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔یہ نہیں پوچھا جارہاکہ اس بحران کے پس پردہ کون ہے؟کس نے بحران پیدا کیا ہے؟کیوں پیدا کیا؟ انہوں نے ساتھ ہی ایران اور روس پربھی تنقید کی جو بشارالاسد کی پشت پناہی کرتے ہیں۔
آج کی مسلم دنیاکاایک سرخیل ملک ترکی 20لاکھ شامی پناہ گزینوں کی چارسال سے خدمت کررہاہے۔ترکی نے ان شامی پناہ گزینوں کو ہرطرح کی ہرممکن اعلیٰ سے اعلیٰ سہولیات مہیا کررکھی ہیں ۔کیسی کمال بات کہ خدمت کی ناقابل بیان مثال قائم کرتے ہوئے مہاجرین شام کے خیموں کو بھی ائرکنڈیشنڈ بنایاگیاہے ،باقی سہولیات اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہیں۔ لیکن اس سب کاکہیں کوئی ذکر کرنے کو تیارنہیں۔انتہائی کمزورساملک اردن 6 لاکھ افراد کی میزبانی کررہاہے۔
یورپ نے مرتے مراتے چندلاکھ شامیوں کو پناہ دینے کی بات توکی ہے لیکن جس طرح کی ذلت و رسوائی کاسامناانہیں یورپی ممالک میں ہورہاہے، وہ ان ملکوں کی اندرونی اخلاقی پستی کی حالت زار اور ان کے انسان دوست ہونے کے دعوے کی خوب قلعی کھول رہاہے۔ پاکستان کوہرلحاظ سے دنیا کے بدترین ممالک میں شامل کرنے والے ان ملکوں کو یاد نہیں کہ پاکستان مسلم دنیا ہی نہیں’ ساری کرہ ارضی کا وہ واحد ملک ہے ،جہاں اس وقت بھی دنیاکے سب سے زیادہ مہاجرین وپناہ گزین آباد ہیں۔ پاکستان ان لوگوں کو اپنے ہاں مہمان بناکربرسوں سے خدمت میں مصروف عمل ہے۔
Australia Refugees
آسٹریلیاآج کی اس ترقی یافتہ ‘مہذب اور دولت کی بے پناہ فراوانی رکھنے والی جدید دنیا کا سرخیل سمجھ اجاتاہے ۔ پاکستان سے 10 گنابڑا رقبہ اور 10 گنا کم آبادی رکھنے والے اس ملک کی اندرونی اخلاقی زبوں حالی اور اخلاقی قدروں پر تنگ دستی کاعالم یہ ہے کہ اس نے اپنے ہاں صرف 8ہزارپناہ گزینوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ہنگری نے تویہ تک کہہ دیا کہ اگر چند لاکھ شامی پناہ گزین ان کے ملک میں داخل ہوگئے توان کے ملک کا عیسائی تشخص بربادہوکررہ جائے گاجو انہیں قبول نہیں ہے اور وہ شامی پناہ گزینوں کو اپنے ہاں نہیں آنے دیں گے۔
شام کے ان بے خانماں لوگوں کو اسی یورپ کے لوگ خریدخرید کر جانوروں کی طرح فروخت بھی کر رہے ہیں۔جن دنوں ننھے عیلان کردی’ اس کے رشتہ داروں اور دیگر لوگوں کی کشتی غرقاب ہوئی’انہی دنوں ہنگری آسٹریا سرحدپر انہی شامی مسلمانوں کی 71لاشوں سے بھرا ہوا ٹرک ملا۔ان لوگوں کی ساری جمع پونجی ان سے سمیٹنے کے بعد مہذب یورپ کے سمگلران بے کسوں کو پہلے کشتیوں اور پھر ٹرکوں میں لاد کرلے جارہے تھے کہ ان سب کو راستے میں تڑپ تڑپ کر مرنے کے لیے چھوڑ کر وہ فرار ہو گئے۔ یہی کچھ آج کل برما کے روہنگیامسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے اوریہی کچھ شام کے مسلمانوں کے ساتھ ہورہاہے۔
25لاکھ شامیوں کو سعودی عرب نے’ تو 20 لاکھ کو ترکی نے پناہ دی لیکن ابھی تک ایک بھی شکایت دیکھنے یا سننے کونہیں ملی کہ ان دو ملکوں میں کسی شامی کے ساتھ کوئی معمولی غیرانسانی سلوک ہواہو لیکن خود کو انسانیت کے سب سے بڑے علمبردار کہلانے والوں کے چہرے ایک بار پھر خوب خوب ننگے ہوکر سامنے آرہے ہیں۔ نجانے یورپ پہنچنے والے ان چند لاکھ غیرت و حمیت کے پیکر اور شرم وحیا میں ڈوبے صحیح العقیدہ مسلمانوں پروہاں کیسے کیسے حملے ہوں گے…؟ ان کی عزتوں کے ساتھ کیسے کیسے کھلواڑ ہوں گے اور انہیں کیسے کیسے امتحانوں اور ابتلاؤں سے گزرناپڑے گاکیونکہ تاریخ ہی نہیں’ حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے۔
Muslim killing
ابھی حال ہی کی توبات ہے کہ یوگو سلاویہ ٹوٹنے کے بعد سربیانے بوسنیا کے 3 لاکھ مسلمانوں کو کیسے تڑپاتڑپا کر قتل کیا تھا۔ بلڈوزروں کی مددسے ہزاروں کو تڑپتے سسکتے زندہ درگور کیا تھا۔ یہاں مسلمانوں کی عورتوں کی اتنے بڑے پیمانے پرعصمت ریزیاں ہوئیں کہ ایک عالم چیخ وپکار میں لگا رہا لیکن یورپ اورامریکہ سالہا سال تماشہ دیکھتے رہے۔ پھر جب انہوں نے دیکھا کہ یہاں کے چند مسلمان اپنے تئیں ہتھیارلے کر راہ جہاد اپنا چکے ہیں اوریہ سارے یورپ کے لئے خطرے کاباعث ہو سکتے ہیں توبوسنیا اور سربیا کی ایسی تقسیم کرڈالی گئی کہ بھاری مسلم اکثریتی ملک بوسنیا ایک لولا لنگڑا اور اپاہج ریاست بن گیا۔اسے انتہائی مشکل سے سمندر سے ایک سوراخ نماجگہ ملی اور نظام حکومت اورحکومت ایسی بنائی گئی کہ مسلمان بے بس ہوکررہ گئے۔
اس بظاہر رنگا رنگ اور چکاچوند مغربی دنیاکی منافقتیں بھی کیسی کیسی اور کس کس طرح کی ہیں…؟انہی لوگوں اوران کے اداروں کو پاکستان اورسعودی عرب میں پھانسیوں پر شدید اعتراض ہے۔اس کی وجہ سے وہ دونوں ملکوں کے خلاف سخت بیانات جاری کرتے ہیں۔پاکستان کی توامداد بنداور تعلقات ختم تک کرنے کی باتیں ہوتی ہیں لیکن بشارالاسد جس نے اپنے مخالفین میں سے کم ازکم ایک لاکھ نوجوان گرفتار کرکے پہلے جیلوں میں ڈالے اور پھرہزاروں کو بدترین طریقے سے مارڈالا’اس پرکسی کو اعتراض نہیں۔
یہی کچھ اب بھی بشارالاسد کی فورسز کررہی ہیں جو کسی مخالف کوزندہ نہیں رہنے دیتیں۔ اب چونکہ ملک کے سارے ہی عوام اور سارے ہی طبقات بشارالاسد کے مخالف ہیں ‘لہٰذا ان سب کاانتہائی برے طریقے سے قتل عام جاری ہے لیکن اس سے نہ توانسانی حقوق کے عالمی چارٹرپرکوئی زد پڑتی ہے او ر نہ انسانیت کی توہین ہوتی ہے کیونکہ یہ قتل توان طاقتوں کے اصل مشن اورفکر کے مطابق ہو رہاہے اورقطع و برید کا شکار وبرباد ہونے والے چونکہ مسلمان ہیں، اس لیے ساری دنیا کو سب قبول ومنظور ہے۔