تحریر: مسز جمشید خاکوانی بھارت میں انتہا پسندی اور عدم برداشت کا عنصر بڑھتا جا رہا ہے اور بھارت جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ ہے اس کے لیئے یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے ۔گریٹر نوئیڈا کے گائوں بساڑا میں محمد اخلاق نامی شخص کو کچھ لوگوں نے محض اس لیئے مار دیا کہ انہیں شبہ تھا اس کے گھر میں گائے کا گوشت پکتا ہے اس کے بیٹے کو بھی زخمی کیا گیا حلانک انہوں نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا بس گائوں کے پجاریوں نے لائوڈ سپیکر پر اعلان کیا اور ہلہ بول دیا تین ہندو نوجوانوں نے اپنے ستر مسلمان پڑوسیوں کی جان بچائی وہ رات کے اندھیرے میں دو بجے تک چلتے رہے اور گائوں کا تالاب پار کیا جو ستر لوگ افراتفری اور خوف و ہراس میں اپنی جانیں بچا کر بھاگے اور گھر سے بے گھر ہوئے بھارتی حکومت نے ان کے لیئے کیا کیا۔
اس کا کچھ پتا نہیں ۔بھارت میں آجکل انتہا پسند ہندو تنظیم شیو سینا نے آگ لگائی ہوئی ہے کبھی رام مندر کی تعمیر کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے کبھی دانشوروں کے منہ پر کا لک ملی جاتی ہے تو کبھی فنکاروں اور کھلاڑیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے شیو سینا کو پاکستان اور پاکستانیوں سے تو اللہ واسطے کا بیر ہے ہی خود ہندوستان میں رہنے والے سیکولر،روشن خیال ،معتدل لوگ بھی انکی نفرت سے محفوظ نہیں حال ہی میں دانشوروں ،ادیبوں کی طرف سے اعزازات کی واپسی کا عندیہ جن میں شاہ رخ خان بھی شامل ہیں اس کی واضح دلیل ہے کہ لوگ شیو سینا کے اس عمل کو کس انداز میں دیکھ رہے ہیں۔
جب تاریخی بابری مسجد کو منہدم کیا گیا تو بال ٹھاکرے کی طرف سے اعلان کیا گیا یہ شیو سینکوں نے عظیم کام انجام دیا ہے شیو سینا کی بنیاد بال ٹھاکرے نامی ایک کارٹونسٹ نے 1966 میں رکھی اس نے لسانی اور مذہبی بنیادوں پر اچھے نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کیا جو بے روزگار تھے اس تنظیم کو مراٹھی ہندو راجہ شیوا جی کے نام سے منسوب کیا گیا شیوا جی کو بعض مورخ مغل بادشاہوں کے خلاف علمبردار کے طور پر پیش کرتے ہیں بال ٹھاکرے کے مطابق یہ تنظیم صرف مراٹھی ہندو نوجوانوں کو حقوق دلانے کے لیئے قائم کی گئی تھی۔
Shiv Sena
یہی وجہ تھی کہ خود غیر مراٹھیوں کے خلاف بھی اس تنظیم نے تشدد کا رنگ اختیار کیا شیو سینا میں بال ٹھاکرے کے علاوہ کوئی دوسرا رہنما نہیں تھا نہ ہی کبھی کسی نے جماعت کے اندر انتخاب کرانے کی بات کی ۔اگر کسی نے ایسی بات کی بھی تو اسے تنظیم سے نکال دیا گیا شیو سینا کے مطابق ہندوستان کی تہذیب ہندو ہے اور ہندوستان میں رہنے والے ہر شخص کو اسے ماننا پڑے گا بال ٹھاکرے ہٹلر کو اپنا سیاسی گرو مانتا ہے گو شیو سینا پورے ہندوستان کی نمائندہ تنظیم نہیں ہے لیکن ممبئی میں اس نے اپنی بادشاہت قائم کر رکھی ہے مودی سرکار کے آتے ہی شیو سینا اور اس جیسی دوسری فرقہ پرست تنظیموں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے جن کو مودی سرکار کی پشت پناہی حاصل ہے اور ان میں سب سے آگے شیوسینا ہے۔
جبکہ ڈاکٹر پرتاپ ویدک (معروف بھارتی صحافی) اس کے برعکس تجزیہ کرتے ہیں وہ اسے پی جے پی اور شیو سینا کے درمیان لڑائی قرار دیتے ہیں وہ کہتے ہیں پی جے پی کو نیچا دکھانا شیوسینا کا خاص ہدف ہے چیف منسٹر کی کرسی پر بھلے پی جے پی کا آدمی بیٹھا ہو لیکن ممبئی میں اصل بادشاہت شیو سینا کی ہے شیو سینا نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ چنائو میں ضرور ہار گئی لیکن داداگیری میں جیت گئی لیکن اس کی داداگیری صرف ممبئی تک محدود ہے اگر اس میں دم ہوتا یا وطن پرستی ہوتی تو اس کی دلی اور لکھنئو میں بھی چلتی لیکن خورشید قصوری کی کتاب کا افتتاح دلی میں دھوم دھام سے ہوا اور اس میں لعل کرشن ایڈوانی بھی مدعو تھے۔
غلام علی کو دلی اور لکھنئو کی سرکاروں نے دعوت نامے بھیج دیے ہیں (غلام علی تا حیات بھارت نہ جانے کا اعلان کر چکے ہیں )اب معلوم نہیں ڈاکٹر صاحب مودی سرکار کو ڈیفینڈ کر رہے ہیں یا بھارت ماتا کو وہ شیوسینا کی ان نفرت انگیز کاروائیوں کو مسخرے پن سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں ۔۔ادھر ایک محترم ایم ارشاد صاحب نے نیا سوال اٹھایا ہے وہ لکھتے ہیں شیوسینا کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آرہا ہے کہ گائے ذبح کرنے پر سرکاری طور پر پابندی لگائی جائے گائے کے گوشت کی فروخت پر تو غیر اعلانیہ پابندی ہے ہی لیکن افسوس یہ ہے کہ اس پابندی کا شکار زیادہ طور پر مسلمان ہیں باقی خود ہندووں کو گوشت برامد کرنے کی کھلی اجازت ہے۔
Cow Meat
بھارت میں چھ بڑی کمپنیاں ہیں جو گائے کا گوشت فراہم کرتی ہیں ان میں سے چار ہندووں کی ملکیت ہیں حیران کن بات یہ ہے کہ ان ہندووں نے اپنی گوشت فراہم کرنے والی کمپنیوں کے نام مسلمانوں جیسے رکھے ہوئے ہیں آخر انہیں ایسا کیوں کرنا پڑا جبکہ ہندو تو گائے کو مقدس خیال کرتے ہیں ان اداروں کے نام درج ذیل ہیں ۔الکبیر ایکسپورٹ پرائیویٹ لیمٹڈمالکان کا نام مسٹر ستیش اور مسٹر آتل سمبڑوالایڈریس ہے۔
جولی میکرچیمبر ممبئی 1 (xxx) 4 ۔ایم کے آر فروزن فوڈایکسپورٹ پرائیویٹ لمیٹڈمالک کا نام ہے مسٹر دون ابووٹ ایڈریس ہے ایم جی روڈ جن پتھ نیو 1دہلی (xx) 11 ۔ عریبین ایکسپورٹ پرائیویٹ لمٹی ڈمالک کا نام ہے مسٹر سنیل کپورایڈریس ہے رشین مینشن اوور سیز ممبئی 1 (xxx) 4 ۔پی ایم ایل انڈسٹری پرائیویٹ لمٹیڈمالک کا نام مسٹر اے ایس بندرا ایڈریس ہے ایس سی او 62.63 سیکٹر 34 چندریکڑھ 22 (x) 16 ۔اب کوئی شیو سینا سے پوچھے کیا تم میں سے کسی نے ان کمپنیوں کے مالکان کو مارا پیٹا یا ان کے منہ پر کالک ملی ؟۔
اگر نہیں تو اس کی کیا وجہ ہے شیوسینا کی سر گرمیاں ابھی صرف غیر ہندووں کے خلاف ہیں لیکن بہت جلد ان کا دائرہ کار ہندوستان میں بسنے والے تمام افراد تک پھیل سکتا ہے شیوسینا کی سر گرمیاں مذہب کے ذریعے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی ایک کوشش ہیں یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اس پر مودی سرکار کیوں چپ سادھے ہوئے تماشہ دیکھ رہی ہے ہندوستان میں اتنی شدت سے عدم برداشت کا مظاہرہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا اگر بھارتی حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیئے تو بھارت کو بھی پاکستان کی طرح مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی کا سامنا کرنا پڑے گا!