تحرير: وقارانساء میری کالج لائف کا لکھا ہوا افسانہ جو میں نے ریڈيو پاکستان اسلام آباد میں ایثار کے عنوان سے ریکارڈ کروايا-میرے وہ قیمتی صفحات جن کو میں نے سنبھال کر رکھا ہے سوچا اسے پھر سے تحریر کر کے محفوظ کر دوں۔
رات دھیرے دھیرے بیت رہی تھی لیکن وہ اپنی سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی سردیوں کی آمد آمد تھی خزاں رسیدہ پتے باہر چلتی ہوا سے اڑ رہے تھے لگتا ہے بارش بھی ہونے والی ہے اس نے کمرے کی کھڑکی سے باہر اپنے صحن کی طرف دیکھا زرد پتے ہوا کے تھپیڑوں سے درو دیوار سے ٹکرا رہے تھی ہوا کی آواز ایک خوفناک سیٹی کی طرح اس کے کان سے ٹکرا رہی تھی – ھماری زندگی بھی تو ان خزاں رسيدہ پتوں کی مانند ہی تو ہے بے وقعت بے حیثیت ھمیں بھی تو حالات کے تھپیڑے ہوا کی طرح ادھر ادھر پٹخ رہے ہیں – اس نے کھڑکی بند کر دی اور اپنی چارپائی پر آ بیٹھی – کیا ہے یہ زندگی دکھوں اور غموں کا سلگتا الاؤ-اس دنیا میں جہاں ہر کھیل پیسے کا ہی ہے –جہاں انسان کا سب سے بڑا جرم مفلسی ہی ہے –وہ بھی اسی طرح کے گھرانے میں پیدا ہوئی تھی باپ کا انتقال ہو چکا تھا اور اللہ نے بھائی دیا ہی نہ تھا دو بہنیں جن کو ماں محنت مزدوری سے پال رہی تھی۔
Blood
زندگی ايسے ہی گز رہی تھی کہ کچھ بچا کر رکھنے کی نوبت ہی نہ آتی تھی –وہ بھی ماں کے ساتھ محنت کرتی جب کہ منی ابھی چھوٹی تھی ہر وقت کی بیماری کی وجہ سے دس سالہ منی پانچ سال کی لگتی تھی –وہ ٹی بی جیسے مہلک مرض کا شکار تھی کل سے اس کی طبیعت بہت خراب تھی –میں کیا کروں میرے اللہ !آنسو اس کے دامن کو بھگو رہے تھے-کیسے بچاؤں بہن کی زندگی- دو ہفتے پہلے ہی تو اس کی حالت کتنی بگڑ گئی تھی –تب کچھ سوچ کر اس نے ہسپتال کا رخ کیا اور جب وہ واپس آئی تو اس کے پرس میں کچھ نوٹ تھے –وہ کتنی نڈھال ہو رہی تھی کہ قدم اٹھانا بھی دشوار ہو رہا تھا-اس نے اپنا خون بیچا تھا اور اب پھر وہی صورتحال تھی –ہاں مجھے پھر سے خون بیچنا ہو گا منی کے علاج کے لئے ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اسے ہسپتال داخل کروائیں ہسپتال تو سرکاری تھا پھر بھی پیسوں کے بغیر کام نہ چلتا تھا دوائیوں کے علاوہ اوپر کا خرچ ڈرپ سے لیکر سرنج تک تو خود خريدنی پڑتی تھی۔
ہاں مجھے پھر اپنا خون بيچنا ہو گا –اس کی انیمیا کا شکار ماں ہیيوں کا ڈھانچہ بنی اس وقت خود بھی بے سدھ پڑی تھی اس زندگی سے تو موت بہتر ہے وہ کبھی کبھی اللہ سے موت کی التجائیں کرتی اور کبھی خود ہی اپنا خیال جھٹک دیتی ایسا ہوگیا تو ان کو کون دیکھے گا کتنا بڑا جرم ہے یہ مفلسی بھی باہر بارش کا پانی ٹین کی چھت پر ايک بے ہنگم شور کر رہا تھا اور اندر اس کے آنسو اس کے دل پر اس سے کہیں زيادہ زور سے گر رہے تھے صبح وہ پھر ايک پرائیویٹ ہسپتال کی طرف جارہی تھی –چہرے پر مفلسی کی گہری لکیریں مدقوق اور ویران چہرہ-آج تو زیادہ خون دینا ہوگا منی کو ہسپتال جو داخل کروانا ہے۔
Hospital
جب وہ ہسپتال سے نکلی تو وہ لڑکھڑا رہی تھی اس کی ٹانگیں کپکپا رہی تھیں دل کو جیسے کوئی مٹھی میں مسل رہا تھا – اپنے پرس کو اس نے مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا – آج اس میں زيادہ پیسے تھے –مجھے جلدی گھر پہنچنا ہو گا اس نے تيز چلنا چاہا –لیکن منہ کے بل جاگری بے بسی اس کے چہرے پر پھیل گئی اپنی ہمت کو مجتمع کیا اور اٹھی- سڑک کے اطراف چلتے ہوئے لوگ کسی نے اس کو نہ دیکھا – جب اس کے اوسان بحال ہوئے تو خود کو اس نے زمین پر گرا ہوا پایا –میرا پرس ! اس کے حواس جاگے پرس اس کے نیچے ہی آیا ہوا تھا کھول کر دیکھا پیسے تھے- اس نے شکر ادا کیا کہ نیچے آجانے کی وجہ سے کسی نے پرس نہ دیکھا ورنہ شاید اس وقت یہ پیسے اس کے پاس نہ ہوتے۔
ہاں اس کو تو ضرور لوگوں نے دیکھا مگر کسی نے اس کی مدد نہ کی تھی – وہ اٹھی اور راہ چلتے راہ گیر سے وقت پوچھا شام کے چار بجے ہسپتال سے تو وہ دس بجے نکلی تھی۔ ڈولتے قدموں سے گھر کی طرف چلی –ماں اس کے نہ آنے سے پریشان کھڑی تھی –دور سڑک کے پار وہ نظر آئی بھی تو کس حالت میں ماں کا دل لرز اٹھا وہ بیٹی کی جانب بھاگی جس کے چہرے پر موت کی سی ویرانی تھی انجانے وسوسوں سے ماں کا دل ہول گیا
Blood Girl
–وہ سڑک پار کرنے لگی تھی کہ ماں کی چيخ بلند ہوئی ایک تیز رفتار کار آرہی تھی وہ لڑکھڑا کر سڑک پر جاگری تیز رفتار کار اس کو کچلتی ہوئی نکل گئی –ماں کی چیخوں سے عرش کانپ اٹھا لوگ جمع ہوگئے۔ –اس کی خون میں نہائی بیٹی نے حسرت سے ماں کو دیکھا –اور پرس اس کی طرف بڑھا دیا –وہ اس کو مضبوطی سے پکڑنا نہیں بھولی تھی۔ ماں——– کتنا اچھا ہوتا اگر—— اس بے قیمت خون—— کی قیمت بھی مل جاتی —–منی کے علاج کے لئے پیسے ——– زندگی کی بے رحمی سے اس کو نجات مل گئی-ماں کی چیخیں در و دیوار ہلا رہی تھیں –لوگ اس کی جوان موت پر افسوس کر رہے تھے اور وہ ان سب جھمیلوں سے آزاد میٹھی نیند سو رہی تھی۔