تحریر: روہیل اکبر کیا دور آ گیا ہے کہ ہمارے شہر کھنڈرات کا منظر پیش کررہے ہیں اور کھنڈرات جدید دور میں تبدیل کردیے گئے ہیں ہمارے دیہاتی علاقوں میں صحت، تعلیم اور روزگار جیسی تینوں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے وہاں کے پیسے والے لوگ پرسکون زندگی کی تلاش میں شہروں میں آبسے ہیں جووہاں رہ گئے ہیں وہ زندگی کی مشکلات ترین جنگ لڑ رہے ہیں پینے کے صاف پانی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جگہ جگہ بننے والے کھڈوں سے سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں مسلم لیگ ن کے اس تیسرے دور اقتدار کو بھی تقریبا 3 سال مکمل ہونے والے ہیں مگر وہ بہتری نہیں آئی جسکی امیدیں کی جارہی تھی سلسلہ ابھی بھی وہی رکا ہوا ہے۔
جہاں سے ٹوٹا تھایعنی قیام پاکستان سے لیکر آج تک سب کا غذی باتیں اور خیالی منصوبے تھے ملک کو ایشیئن ٹائیگر بنا ،کراچی کو روشنیوں کا شہر بحال کرنا اور لاہور کو پیرس بنانے جیسے منصوبے ابھی تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے لاہور ،کراچی ،لاڑکانہ ،پشاور ،کوئٹہ اور ملتان جیسے یہ عظیم شہر وہ ہیں جو حکمرانوں کی پناہ گاہیں ہیں مگر انہوں نے اپنی اپنی باریوں میں اپنے شہروں کی حالت ہی درست نہیں کی باقی ملک تو بہت بڑا ہے اسلام کے نام پر بننے والے اس پاک وطن میں آج تک اسلامی قوانین کا ہی نفاذ نہ ہوسکا حکمرانوں کے ڈاکو نے انکے حواریوں کو بھی چوریاں کرنے کی اجازت دیدی کمیشن اور کرپشن کی دیمک نے ہماری رہی سہی توانائیوں کو بھی چاٹ لیا ہے۔
اسلامی دور کی مثالیں دینے والے شائد خلفہ راشدین کے طرز حکومت سے واقف نہیں ہیں حضرت عمر فاروقؓ وہ صحابی رسول تھے جنہیں حضر ت محمد ﷺنے اللہ تعالی سے دعا کرکے مانگا تھا جنکے ادائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد پہلی بار آذان اور نماز کھل کر سرعام ادا کی کی گئی تھی جنہوں نے خانہ کعبہ میں آکردشمن اسلام کفار کے سامنے آکر کہا بلند آواز سے کہا اے لوگو جو شخص مجھے جانتا ہے وہ خوب جانتا ہے اور جو نہیں جانتا اسے بھی معلوم ہوجانا چاہیے کہ میں عمر بن خطاب ہوں اے اہل قریش دین اسلام قبول کرلو اور محمد ﷺ کی اطاعت کرنے میں تیزی دکھاؤ جسکے بعد کفار مکہ کو سانپ سونگ گیا ایک روایت میں آتا ہے کہ جس دن حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا دین اسلام نے ترقی کی منزلیں طے کیں اور پھر کبھی مسلمانوں کو رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑا حضرت عمرؓ وہ صحابی ہیں جنہیں انکی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دیدی گئی تھی جنکے دور خلافت میں ہونے والے اہم کاموں کا ہی اگر شمار کیا جائے تو وہ بھی لامحدود ہیں اورجو ہمارے آج کے ترقی یافتہ دور کے قوانین کی بنیاد ہیں۔
Hazrat Umar Farooq
جن میں سے چند ایک یہ ہیں جیلوں کی تعمیر،اشتہاریوں کی گرفتاری ،پھانسی کی سزا ،جلاوطنی کی سزا،فوجی انتظامات ،مستقل محکمہ ،چھانیوں کا قیام ،فوجی اصطبل ،تعمیرات ،مہمان خانے ،غلہ کے گودام ،شہروں کی تعمیر ،بند کی تعمیر،نئے شہر بسانا،لاوارث بچوں کی نگہداشت ،مسجد نبوی ومسجد حرام کی توسیع اور تجدید،صوبوں کی تقسیم،قابلیت کی بنا پر عہدیداروں کی تعیناتی ،بیت المال کی عمارت ،ہجری سن کا آغاز ،اشاعت اسلام سمیت عدل وانصاف کی حکمرانی جیسے لازوال ایسے کا م ہیں جن پر آج ترقی یافتہ ممالک کی بنیادیں قائم ہیں خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروقؓ کی بیوی( حضرت عاتکہؓ )کہتی ہیں کہ عمرؓ بستر پر سونے کے لیے لیٹتے تو نیند اڑ جاتی تھی بیٹھ کر رونا شروع کردیتے تھے میں پوچھتی تھی اے امیر المومنین کیا ہوا ؟ تو وہ کہتے تھے کہ مجھے محمد ﷺ کی امت کی خلافت ملی ہوئی ہے اور ان میں مسکین بھی ہیں ضعیف بھی ،یتیم بھی اور مظلوم بھی ہیں مجھے ڈر لگتا ہے کہ اللہ تعالی مجھ سے ان سب کے بارے میں سوال کرینگے مجھ سے جو کوتاہی کوئی تو میں اللہ تعالی اور اسکے رسول کو کیا جواب دونگا۔
سیدنا عمر کہتے تھے کہ اللہ کی قسم اگر دجلہ کے دوردراز علاقے میں بھی کسی خچر کو راہ چلتے ٹھوکر لگ گئی تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں اللہ تعالی مجھ سے یہ سوال نہ کردیں کہ اے عمر ،تو نے وہ راستہ ٹھیک کیوں نہیں کرایا تھا ۔ایک طرف وہ حکمران تھے جن کو رات کے وقت بھی سکون نہیں ملتا تھا اور ایک طرف ہمارے حکمران ہیں جو ہر وقت پرسکون رہتے ہیں اور عوام پریشانیوں کی دلدل میں ڈوب رہی ہے مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کے ڈھائی سال مکمل ہوچکیاور اتنا ہی عرصہ باقی ہے اوریہی آنے والے ڈھائی سال میاں نواز شریف کی زندگی میں اہم ہیں ان ڈھائی برسوں میں اگلے پانچ برسوں کا فیصلہ ہوناہے اس لیے میاں صاحب،جو آپ نے کرنا ہے پھر 2018 میں عوام اس فیصلے کی حمایت یا مخالفت کریں گے اس وقت آپ اور ملک دونوں نازک موڑ سے گزر رہے ہیں آپ کے فیصلے اس ملک کی قسمت بدل سکتے ہیں اس ملک میں خوشحالی لا سکتے ہیں اور خوشحالی کا راستہ بہت آسان ہے اتنا مشکل نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے۔
آئی ایم ایف سمیت غیر ملکی قرضوں سے جان چھڑا کر معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کردیں زراعت اور لائیو اسٹاک پر بھر پور توجہ دیں،میاں صاحب ملک کا مستقبل زراعت سے جڑا ہے ہم بچپن سے پڑھتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن اس ملک میں اس شعبے کو بری طرح نظرانداز کیا گیا ایک بار نہیں سو بار کسانوں کا حق مارا گیاکبھی جاگیردار نے کسان پر ظلم کیا تو کبھی پٹواری نے کسان کو چونا لگایاکبھی ایس ایچ او نے کسان پر غصہ نکالا تو کبھی سیٹھ نے کسان کا استحصال کیایہ سب سے مظلوم طبقہ ہے اس ملک میں جب بھی ہوا کسان پر ظلم ہی ہواکبھی دو نمبر دوائیاں بیچی گئیں تو کبھی دو نمبر کھاد مارکیٹ میں لائی گئی میاں صاحب کسانوں کو آج بھی انہی مسائل کا سامنا ہے جو آج سے65 سال پہلے تھے سیاستدانوں،بیوروکریٹس سمیت تاجروں کے مسائل حل ہوگئے لیکن کسان کا ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔میاں صاحب اگر تین کام جی ہاں صرف تین کام کسانوں کے لیے کردیے جائیں جن میں کسانوں کو زرعی بیچ معیاری ملنا شروع ہوجائیں کھاد اور اسپرے میں ملاوٹ ختم کردی جائے،کسانوں کی جب فصل تیار ہو تو اس کے اس کو جائز دام بھی ملیں تو یہ کسان خوشحال ہونا شروع ہوجائیگا کسان کی خوشحالی کا مطلب ملک کی خوشحالی ہے آپ تو چین سے زیادہ واقف ہیں اسی چین کو ہی دیکھ لیں دنیا بھر میں پھل ایکسپورٹ کرکے اربوں ڈالر کمائے جارہے ہیں۔
Nawaz Sharif
میاں صاحب آپ کے اس ملک میں دنیا کی ہر فصل اور ہر پھل اگ سکتا ہے صرف رہنما ئی کی ضروت ہے صرف جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے،جدید بیجوں کی ضرورت ہے جس پر کیڑے حملہ نہ کرسکیں،میا ں صاحب آپ نے کسانوں کی حالت بدل دی تو ان کی دعائیں اس ملک کی قسمت بدل دیں گی میاں صاحب ہمیں علم ہے کہ آپ اور میاں شہباز شریف کی طرف سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی سنجیدہ کوششیں جاری ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ کرپشن کا خاتمہ اور انصاف کی بروقت فراہمی کے کے لیے بھی موثر اقدامات اٹھائیں،اس ملک کی مٹی بہت زرخیز ہے بے روزگار نوجوانوں کے لیے ترقیاتی اسکیم متعارف کرائیں۔
آپ اپنے سیاسی مخالفوں کو بھول جائیں اگر آپ نے آنے والے ڈھائی سال میں یہ سب کچھ کرلیا تو پھر 2018میں عوام بھی آپ کے ساتھ پورا پورا انصاف کریں گے جس طرح میٹرو بس اور اورنج لائن منصوبوں کے بعد پنجاب اور بلخصوص لاہور کی عوام نے حالیہ بلدیاتی الیکشن میں آپ کے شیروں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے مگر اس کے لیے آپ کو اپنی ٹیم میں بھی شعیب بن عزیز،الطاف ایزد خان ،ڈاکٹر سہیل ثقلین ،عبدالقیوم ،طاہر رضاء ہمدانی ،راجہ جہانگیر انور ،چوہدری امجد ،خرم شکور،شوکت عباس،محسن رفیق،شکیل احمد اورعلی عمار جیسے محنتی ،ایماندار اور قابل اعتماد افسران کورکھنا پڑے گاتبھی جاکر کہیں آنے والے ڈھائی سال میں آپ کے اگلے پانچ سالہ دور اقتدار کا خاکہ واضح ہونا شروع ہو جائیگا۔
اسکے ساتھ ساتھ وزیراعلی پنجاب میاں شہبازشریف اگر اپنے سابقہ قابل اعتماد دوستوں طاہر انور پاشا،اسرار احمد شیخ اور حنیف ذکاء جو انکے پچھلے پانچ سالہ دور اقتدار میں انتہائی ایمانداری سے کام کرتے رہے جن کے کاموں سے میاں شہباز شریف کا عوام میں امیج بہتر بناانکوایک بار پھر اپنی ٹیم میں شامل کرلیں تو یہ سونے پہ سہاگے والی مثال بن جائیگی۔