تحریر: میر افسر امان دنیا میں جہاں دوسرے مسلمان خطوں میں برطانیہ کی مکاری کی وجہ سے مسلمان عذاب میں مبتلا ہیں ان میں سب سے بڑا مسئلہ فلسطین بھی ہے۔ ہندستان کی تقسیم کے وقت کشمیر کو جانے والے واحد زمینی راستہ بھارت کو دے کر تنازہ کشمیر کی بھی بنیاد رکھی گئی۔ڈیورنڈ لین معاہدہ میں مسلمان پٹھان آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کر کے پاکستان اورافغانستان تنازہ کی بنیادرکھی گئی۔ سو سال پہلے بلفور ڈیکلیریشن کے ذریعے فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان لڑائی کی بنیاد رکھی گئی۔فلسطین کو تقسیم کر کے عرب مسلمان علاقوں پر اسرائیل کو مسلط کر دیا گیا۔اسرائیل کا قیام بلفور معاہدہ تاریخ انسانی کا سنگین جرم تھا۔اب جب ٹونی بلیئر عراق پر یلغار کو اپنی غلطی مان رہا ہے تو برطانیہ کو اس سنگین غلطیاں کو بھی تسلیم کر کے مسئلہ کشمیر اورمسئلہ فلسطین کو بھی حل کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔
اس تجزیہ کے مطابق بلفور ڈیکلیریشن کے تحت تقسیم فلسطین کے شرمناک اعلان کی تمام تر ذمے داری برطانیہ پر عائد ہوتی ہے۔ پھر دنیا بھر سے یہودی ہجرت کر کے فلسطین آنے لگے جو آج تک جاری ہے۔ یہودی کہتے ہیں کہ دریائے دجلہ سے دریائے فرات تک ہمارا علاقہ ہے یہ نعرہ اسرائیل کی پارلیمنٹ کی دیوار پر کندہ ہے۔ فلسطینیوں کی زمینوں کو ذبردستی چھین کر اُس پر یہودی بستیاں بسانا اب بھی جاری ہے۔اقوام متحدہ کی فلسطینیوں کے حق میں لا تعداد قراردادوں کے باوجود اسرائیل ان پر عمل نہیں کر رہا۔امریکا ہمیشہ اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی قراردادوں کو اپنا ویٹو پاور استعمال کر کے عمل سے روک دیتا ہے اس لیے دنیا میں مشہور ہے کہ اسرائیل امریکا کا ناجائز بچہ ہے۔
اب مغرب کی لونڈی اقوام متحدہ، فلسطینیوں پر دبائو ڈال کر،صہیونی ریاست کو تسلیم کرانے کی ناجائز کوشش کر رہی ہے۔ اس تناظر میںفلسطینی تحریک مزاحمت نے اس مذموم معاہدے کے سو سال پورے ہونے کے تاریخی موقعہ پر اپنی آزادی کی جد وجہد کو تیز تر کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ تحریک انتفاضہ شروع کرنے پر فلسطینی قوم مبارک کی مستحق ہے ۔ فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس نے تقسیم فلسطین اور عرب علاقوں میں اسرائیلی ریاست کے قیام کی سازش کے لیے طے پائے اعلان بلفور کوانسانی تاریخ کا سنگین جرم قرار دیتے ہوئے برطانیہ پر زور دیا ہے کہ وہ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، بلفور ڈیکلیریشن کرانے کا اپنا قصور تسلیم کرے۔اعلان بلفور باطل فیصلہ تھاجس کے نتیجے میں فلسطینیوں کے بنیادی حقوق چھین لیے گئے تھے آج فلسطین اپنے وطن کی آزادی کے لیے تاریخی جد و جہد کررہے ہیںیہ جد وجہدمنزل کے حصول تک جاری رہے گی۔
Hamas
حماس کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ کسی مظلوم قوم کے حقوق ساقط نہیں ہوتے۔ فلسطینی عوام اپنے جائز حقوق کے لیے ہر جگہ ہر موقعہ پر اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔فلسطینی قوم اتنی مدت گزر جانے کے بعد بھی اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کو نہیں بھولی ہے اور بھر پور طریقے سے نہ ختم ہونے والی جدو جہد آزادی کوجاری رکھی ہوئے ہے۔یہودی ہزاروں سالوں سے دنیا بھر میں پروپیگنڈہ کر تے رہے ہیں کہ فلسطین ان کا آبائی وطن ہے۔ جبکہ ان کی یہ بات تاریخی طور پر غلط ہے۔ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ فلسطین یہودیوں کا آبائی وطن قطعاًنہیں ہے۔ جب یہودی بنی اسرائیل تھے یعنی یہودی نہیں بنے تھے اس وقت تقریباً تیرہ سو برس قبل مسیح میں وہ فلسطین میں داخل ہوئے تھے۔ خود بائیبل میں یہ ذکر موجود ہے کہ اس وقت فلسطین کے اصل باشندے دوسرے لوگ تھے ۔بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے فلسطین کے اصل باشندوں کو قتل کیا اوراس سر زمین پر قبضہ کیا تھا۔
اسرائیلیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ خدا نے یہ ملک ان کو میراث میں دیا ہے یہ اسی طرح ہے جیسے فرنگیوں نے سرخ ہندیوں(red indians )کو فنا کر کے امریکہ پر قبضہ کیا تھا۔ جس طرح برصغیر میں وسط ایشاء سے آئی ہوئی قوم نے برصغیر کے قدیمی آبادی دراوڑ کو قتل و غارت کے بعد خود کو ہندو کہہ کر ہندوستان کے مالک بن بیٹھے اور دراوڑوں کو اچھوت بنا دیا۔ جس ہیکل سلیمانی پر یہودی دعویٰ کرتے ہیں یہ دسویں صدی قبل مسیح میں حضرت سیلمان نے تعمیر کرایا تھا۔ پہلے آٹھویں صدی قبل مسیح اسیریا نے شمالی فلسطین پرقبضہ کر کے اسرائیلیوں کاقلع قمع کیا تھا اورعربی النسل قوموں کو آباد کیا تھا۔
پھر چھٹی صدی قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے جنوبی فلسطین پر قبضہ کر کے تمام یہودیوں کو جلاوطن کر دیا تھا۔طویل مدت کی جلاوطنی کے بعد ایرانیوں کے دور میں یہودیوں کو پھر جنوبی فلسطین میں آبادہونے کا موقع ملا۔ یہودیوں نے ٧٠ء میں رومی(عیسائی) سلطنت کے خلاف بغاوت کی، جس کی پاداش میں رومیوں نے ہیکل سلیمانی کو مسمار کر کے کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔ ١٣٥ء میں رومیوں نے پورے فلسطین سے یہودیوں کونکال دیا۔اس کے بعد فلسطین میںعربی النسل لوگ آباد ہو گئے۔ جیسے وہ آٹھ سو برس پہلے آباد ہوئے تھے۔اسلام کے آنے سے پہلے فلسطین میںیہی عربی قبائل آباد تھے۔ فلسطین میں یہودیوں کی آبادی قریب قریب بالکل نا پید تھی۔
Islam
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک تو یہودی ابتدا میں قدیمی آبادی کی نسل کُشی کر کے فلسطین میں زبردستی آباد ہوئے تھے ۔دوم شمالی فلسطین میں چار سو برس اور جنوبی فلسطین میں کل آٹھ سو برس رہے۔ جبکہ عرب شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال اور جنوبی فلسطین میں دو ہزار سال سے آباد چلے آ رہے ہیں ۔ اس کے باوجود یہودی کہتے ہیں کہ فلسطین ان کے باپ داد کی میراث ہے جبکہ یہ تاریخی فراڈ ہے۔ یہودی کہتے ہیں ان کو حق ہے کہ فلسطین کے قدیم باشندوں کو اسی طرح نکال باہر کریں اور خود ان کی جگہ پر بس جائیں جس طرح تیرہ سو برس قبل مسیح میں انہوں نے کیا تھا یعنی قدیم باشندوں کو فلسطین سے زبردستی نکال دیا تھا۔جب عرب میں اسلام پھیلا تو فلسطین کی ڈھائی ہزار پرانی عرب آبادی مسلمان ہو گئی اور اب تک وہاں آباد ہیں۔
یہودیوں کے ٹریک ریکارڈ کی بنا پر اس کو اللہ تعالیٰ نے دھتکاری ہوئی قوم قرار دیا ہے۔یہ اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے ہمیشہ تتر بتر رہی ہے یہ ہمیشہ اپنے محسنون سے غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔غداری کی وجہ سے ہٹلر(عیسائی) نے ان کو اس قدر قتل کیا جسے یہودی ہولو کاسٹ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔اسلام کے غلبے کے دور میں دنیا میں انہیں مسلمان سلطنتوں میں سکون نصیب ہوا جس کا ذکر یہ خود کرتے ہیں جو تاریخ کے صفحوں میں درج ہے۔ اب فلسطینی مسلمانوںپر ظلم و ستم کر کے اُن کو اپنے وطن اور گھروں سے بے دخل کر کے محسن کشی کر رہے ہیں۔ اب اپنی شیطانی عادتوں، جس کے ذکر سے قرآن بھرا پڑا ہے، فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ظلم کی انتہا کر دی ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کو جو فلسطین کے قدیمی باشندے ہیں، ظلم کی انتہا کر کے اُن کو وطن سے بے دخل کر دیا۔
Palestinian Muslims
اُن کی زمینوں پر ذبردستی قبضہ کر لیا ہے۔ ان کے مکانات کو بلڈوزروں سے مسمار کر دیا ہے۔ جو مسلمان اِن کے ظلم ستم کے باوجود فلسطین میں موجود ہیں ان کا محاسرہ کیا ہوا ہے اِن سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ کوئی اِن کو انسانی ہمدردی سے کھانے پینے کی اشیا پہنچانے کی کوشش کرتا ہے تو اُنہیں غزہ کے محصورین تک پہنچنے سے پہلے ہی بین الاقوامی سمندر میں حملہ کر کے واپس جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔زمینی راستہ جو مصر یا اردن کی طرف ہے وہاں سے بھی کھانے پینے تک کی اشیا بھی نہیں آنے دیتے۔ اِس سے یہودی چاہتے ہیں کہ فلسطینی مسلمانوں کو اتنا تنگ کرو کہ وہ فلسطین سے کہیں اور ہجرت کر جائیں۔مسجد اقصیٰ جو مسلمانوں میں مکہ اور مدینہ کے بعد احترام کی جگہ ہے جس جگہ سے ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی علیہ وسلم نے معراج کے سفر پر روانہ ہوئے تھے ۔اسی مسجد میں آپۖ نے تمام انبیاء کی امامت کی تھی اور امام الانبیاء کہلائے گئے تھے۔
مسلمانوں کی مقدس مسجد اقصیٰ پر یہودیوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ آئے روز مسجد اقصیٰ میں یہودیوں کے فوجی مسلمانوں کو کبھی شہید کرتے ہیںکبھی گیس کے شل مارکر اور کبھی حواس گم کرنے والے بم اور ربڑ کی گولیاں چلا کر زخمی کرتے ہیں۔قارئین !فلسطینی تو فلسطین ،بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے سو برس ڈٹے ہوئے ہیں مگر مسلمان حکومتوں کے امریکی پٹھو حکمران ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔عجیب اتفاق ہے کہ کشمیر اور فلسطین میں ٹینکوں اور بموں کے مقابلے میں مظلوم پتھر اور غلیلوں سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔دیکھتے ہیں کہ عالم انسانیت کی انسانیت کب جاگتی ہے ۔بہر حال برطانیہ کا ناجائز مسلط کردہ بلفور ڈیکلریشن ہی فلسطین میں لڑائی کی جڑ ہے۔
Mir Afsar Aman
تحریر: میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان اسلام آباد (سی سی پی)