تحریر: انجینئر سید فیضان رضا صوبے بھر کے ماہرینِ منصوبہ بندی کی اہم میٹنگ وزیر اعلیٰ کی زیرِ صدارت ہو رہی تھی۔۔صوبائی دارلحکومت میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے دبائو کی وجہ سے پیدا ہونے والے شہری مسائل زیرِ غور تھے۔ ایک صاحب بڑی فصاحت و بلاغت کے ساتھ شہر کی سڑکوں کو کشادہ کرنے کا پلان پیش کر رہے تھے۔۔ باتیں اتنی خشک تھیں کہ وزیر اعلیٰ صاحب کے چہرے سے بے زاری عیاں تھی۔وہ کبھی سر کھجاتے، کبھی لاشعوری کے عالم میں یہاں وہاں دیکھنے لگ جاتے۔۔اچانک ساری میٹنگ میں ایک بھونچال آگیا۔ پروجیکٹر پر سلائیڈز کو گھماتے اور پریز ینٹیشن دیتے ہوئے صاحب دنیا میں ٹریفک کو قابو کرنے کے مروجہ جدید طریقوں پر ایک سرسری سی روشنی ڈال رہے تھے کہ یکایک وزیر اعلیٰ صاحب الرٹ ہو کر سیدھے ہوئے۔۔
”ذرا پیچھے کریں ، وہ کیا تھا؟” چیف منسٹر صاحب نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔۔ ان صاحب نے تشویش بھری نگاہوں سے باقی ماہرین کی طرف دیکھا، وہاں بھی چہروں پر ایک تفکر نمایاں تھا۔ ان صاحب نے سلائیڈ کو بیک کیا۔ ”سر یہ میٹرو بس سروس ہے، جسے مقامی ٹرانسپورٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں اس کا بننا مشکل۔۔۔۔””ہم یہ ہی بنائیں گے” وزیر اعلیٰ صاحب نے بات کو کاٹتے ہوئے حتمی انداز میں کہا۔ ماہرین نے اپنی کرسیوں پر بے چینی سے پہلو بدلا۔ سب خشک نظروں سے ان صاحب کو دیکھ رہے تھے جیسے سارا قصور ان کا ہو۔ کچھ ملک دوست لوگوں نے اس منصوبے کے مضمرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی مگر وزیر اعلیٰ صاحب ایک ترنگ میں آچکے تھے اوروہاں موجود سب اس بات سے واقف تھے کے اب کچھ کرنا بے سود ہوگا۔اور اس طرح صوبے میں میٹرو بس منصوبہ کی ‘اعلیٰ سطحی’ اجلاس کے بعد منظوری دے دی گئی۔
Metro Bus
یہ واقعہ میرے ایک دوست نے مجھ سے بیان کیا تھا جو لاہور میںہوتے ہیں اور کسی منسٹری میں زیرِ ملازمت ہیں۔پنجاب میں میٹرو بس منصوبہ ‘کامیابی’ سے پہلے لاہور میں پایہ تکمیل کو پہنچا تو گویا اہل لاہور پیرس میں جا داخل ہوئے۔”ریسپانس” اچھا تھا چنانچہ میٹرو بس منصوبہ لاہور کے بعد راولپنڈی اور پھر ملتان میں آدھمکا۔اب میں چونکہ شہر اولیا کا باسی ہوں اس لیے ملتان میں اس منصوبے کا ہلکا سا تجزیہ کیے دیتا ہوں۔
اس بحث سے قطع نظر کے دیگر ممالک میں یہ میٹرو بس منصوبہ کتنا سستا تھا اور پاکستان میں یہ کتنا مہنگا بن رہا ہے میں آپ کو ایک مختلف جہت میں لیے چلتا ہوں، کیونکہ اس منصوبے کے مہنگے پن سے تو عام وخاص خاصی حد تک واقف ہوچکے ہیں۔ملتان میں میٹرو بس منصوبہ تین فیزز میں مکمل ہوگا۔اس وقت پہلا فیز زیرِ تکمیل ہے۔ اس فیز کی کل لاگت اندازاً اڑتیس ارب لگائی گئی ہے جس میں اضافہ متوقع ہے اور یہ منصوبہ لے دے کر بھی چالیس ارب میں پڑ جائے گا۔کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ چالیس ارب روپے میں کیا کچھ ممکن ہے؟ یہ ہی وہ جہت ہے جس پر میں نے کلام کرنا ہے۔
گیلانی صاحب جب وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہوئے تو وہ جنوبی پنجاب سے منتخب ہونے والے پہلے وزیرِ اعظم تھے۔۔ وسیب کے لوگوں نے ان سے امیدیں وابستہ کیں اور انہوں نے کافی حد تک ملتان کی ترقی میں کردار ادا بھی کیا۔ملتان میں درجن بھر فلائی اوورز کھڑے کردیئے گئے، اہم شاہراہوں کو چھ لین کردیا گیا، خوبصورتی کے لیے سرسبز و شاداب باغبانی کا اہتمام بھی کیا گیا اور ملتان کافی حد تک نکھر گیا۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں ان سب اقدامات کا بجٹ کتنا تھا؟ یہ سب کچھ صرف آٹھ سے دس ارب کے منصوبے میں مکمل کیا گیا۔ پیپلز پارٹی پر کرپشن کے الزامات لگائے جاتے ہیں، اگر کرپشن کو بھی فرض کرلیا جائے تو یہ تمام منصوبے کتنی لاگت کے رہ جاتے ہیں آپ خود اندازا لگا سکتے ہیں۔ اگر آپ کو چالیس ارب کی اہمیت کا اب بھی احساس نہیں ہوا تو چلیے کچھ اور مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
Corruption
آپ حیران رہ جائیں گے کہ چالیس ارب میں ملتان کو انٹرنیشنل سٹی بنایا جاسکتا تھا۔آئیے اندازا لگاتے ہیں کہ ملتان میں چالیس ارب (یہ ابھی پہلے فیز کا خرچہ ہے) سے کیا کچھ کیا جا سکتا تھا۔۔شہر میں ایک چھوٹا اور اچھا علاقائی پارک بنانے کا خرچہ دس سے پندرہ کروڑ ہے۔اگر ایمانداری سے کام کیا جائے تو تقریباً ڈیڑھ ارب کے ذریعے شہر بھر میںدس اچھے پارک بنائے جاسکتے تھے۔
ملتان کی تمام شاہراہوں کو کشادہ کرنے کا خرچہ پانچ ارب رکھ لیجئے(ملتان جیسا شہر جو ابھی ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور جہاں کثیر المنزلہ عمارتیںنہ ہونے کے برابر ہیں، وہاں کشادہ سڑکیں بنانا ذرا بھی مسئلہ نہ تھا، بلکہ یہ وقت کی ضرورت ہے) ۔ شاہراہوں پر اشارے، ری فلیکٹرز اور خوبصورتی کے لیے ایک ارب رکھ لیں۔شہر کو سرسبز و شاداب بنانے کے لیے ایک ارب رکھ لیجئے۔ملتان بھر میں دربدر پھرتے خانہ بدوشوں کو شہر کے مضافاتی علاقے میں ایک کالونی بناکر دی جاتی، جہاں ان کو مفت رہائش فراہم کی جاتی، جس کا زیادہ سے زیادہ خرچہ پانچ ارب لگالیں۔شہر کے تمام سرکاری اسکولز، کالجز اور ہسپتالوں میں ترقیاتی کاموں کے بھی پانچ ارب روپے مختص کرلیںجس کے ذریعے ان اداروں میں مسائل کا خاتمہ کر کے وسائل کا اضافہ کیا جاتا اور ان کی خوبصورتی اور وقعت میں بڑھاو لایا جاتا۔
شہر میں کھیل کے گرائونڈز بنائے جاتے جن لیے دو ارب روپے رکھ لیں۔ملتان کے جنرل بس اسٹینڈ اور ریلوے اسٹیشن میںجدت اور خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے دو ارب روپے مختص کردیں۔ شہر میں دس بہترین نئے اسکولز اور دس کالجز بنائے جاتے جن کا خرچہ اڑھائی ارب رکھ لیتے ہیں۔شہر میں دو نئی یونیورسٹیزکے لیے پانچ ارب ایک طرف کردیں۔۔کل ملا کر یہ خرچہ ہوا تیس ارب روپے، اور اب بھی دس ارب روپے باقی بچ گئے۔
آپ انہیں محفوظ کرلیں اورجہاں آپ کو لگے بجٹ کم رکھا گیا ہے وہاں استعمال کرلیںیا آپ اگر خدا ترسی پر آہی گئے ہیں تو ان دس ارب کی کوئی انڈسٹری لگالیں جہاں دو تین ہزار لوگوں کو روزگار میسر آسکے گا اور وہ آپ کو دعائیں دیں گے۔ان اعداد شمار کے بعد یقینا آپ کا سر چکراگیا ہوگا۔ جو لوگ اس منصوبے کو ”انفراسٹرکچر” کی بہتری سے تشبیع دیتے ہیں ان کی عقل کو میرا عاجزانہ سلام ہے اور ساتھ ہی ان لوگوں کو بھی سلیوٹ ہے جو اس منصوبے کو ‘تجربہ کاری’ کا شاہکار قرار دیتے ہیں۔۔ان سب کے مقابلے میں” ایک” میڑو بس کتنی ترجیح رکھتی ہے یہ سوال میں اہل علم و دانش کے لیے چھوڑے جا رہا ہوں۔