تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی 9 ستمبر 2015 الیکشن کمیشن آف انڈیا نے بہار میں ہونے والے اسمبلی الیکشن کا اعلان کیا ہی تھا کہ ملک و بیرون ملک رہنے والے شہریوں کی نظریں بہار پر مرکوز ہو گئیں۔پانچ مرحلوں میں ہونے والے اسمبلی الیکشن کی تاریخیں جو سامنے آئیں یعنی ١٢،١٦،٢٨ اکتوبر، اور یکم و ٥ نومبر تو سب سے پہلے آرجے ڈی اور جے ڈی یو جو مہاگٹھ بندھن کے بڑے چہرے تھے، پانچ مرحلوں میں الیکشن پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ اس طرح ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں جاتے ہوئے،ووٹرس فیصلہ کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں لہذا یہ کم ہونے چاہیں۔وہیں دوسری جانب وہ بی جے پی اور اس کے حلیف نے خاموشی اختیار کی۔
مہا گٹھ بندھن میں 100 -100-43 سیٹیں تقسیم ہوئیں تو اور پر جوش اور بلند حوصلوں کے ساتھ سرگرمیاں بھی جاری ہوگئیں۔دوران مہم بی جے پی اور اس کی مدد گارآرایس ایس نے بھر پور جدوجہد کی۔دھواںدھار مقرر اور ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی کی 51ریلیاں طے ہوئیں تو وہیں دوسری جانب صرف چھ دنوں میں مودی نے 17 ریلیوں سے خطاب کیا۔بی جے پی کے صدر امت شاہ نے مستعدی سے بہار کو ہی اپنا گھر بنا لیا اور دوران مہم وہ پوری طرح بہار الیکشن پر توجہ دیتے ہوئے سرگرم رہے۔یہاں یہ بات کہنے کی نہیں کہ بی جے پی یا ان کے ہمدردان نے بے شمار دولت صرف کی،ریاست کے تمام ہی اخبارات میں پہلے صفحہ پر اشتہارات دیئے گئے،خصوصاً اردو کے اخبارات بی جے پی کے اشتہاروں سے بھرے رہے۔اور وہ سب کچھ ہوا جو ممکن تھا۔
پانچ نومبر کو آخری مرحلے کا الیکشن مکمل ہوتے ہی ایگزٹ پول کا مرحلہ شروع ہو گیا۔زیادہ تر پول کمپنیوں نے مہاگٹھ بندھن کو نتائج کے اعتبار سے آگے دکھایا ۔دوسری جانب چانکیہ ایگزٹ پول نے بی جے پی اور ان کے حلیف کے حوصلہ بلند کیے اور 155 سیٹوں پر بی جے پی اور ان کے ساتھیوں کے آگے دکھا کر سیکولر پارٹیوں کے جوش کو کچھ کم کر دیا۔وہیں جب 8 نومبر کی صبح ہوئی اور الیکٹرانک میڈیا نے رجحانات کو بتانا شروع کیا تو پہلے ہی مرحلے میں مہاگٹھ بندھن کی امیدوں پر پانی پھرگیا۔صبح گیارہ بجے تک تقریباً 108 سیٹوں میں سے 71 پر بی جے پی اور ان کی حلیف آگے تھیں تو وہیں صرف 35 سیٹوں پر مہاگٹھ بندھن۔ نتیجہ میں بی جے پی کے آفس کے باہر شنکھ کی آوازیں آنے لگیں،پٹاخے پھوڑے جانے لگے،۔
Modi And Nitish
لوگ جشن کے موڈ میں آگئے۔ٹی وی اینکرس اور عوام نے بتانا شروع کیا کہ بی جے پی اور مہا گٹھ بندھن کے درمیان جو بہت واضح فرق سامنے آگیا ہے اب اس کو تبدیل کیا جانا ممکن نہیں ہے۔لیکن مرحلہ آگے بڑھا تو تقریباً 10:30 بجے تک یہ صورتحال تبدیل ہوتی نظر آئی۔ 236 سیٹوں کے رجحانات میں مہاگٹھ بندھن اب 124 پر تھا تو بی جے پی اور ان کے حلیف 103 پر جبکہ 9 آزاد امیدوار۔اور مکمل 143 سیٹوں کے رجحانات نے چانکہ پول کو مکمل طور پر خارج کرتے ہوئے 151 پر مہاگٹھ بندھن کو آگے دکھایا تو بی جے پی اور ان کے حلیف کو 82 پر پہنچا دیا جبکہ آزاد امیدوار اب 10 سیٹوں پر سامنے نظر آئے۔اور حتمی نتائج جن کا عوام بے صبری سے انتظار کررہے تھے وہ بھی کچھ اس طرح سامنے آئے ہیں: مہاگٹھ بندھن 178 ، بی جے پی 58 اور دیگر 7 ۔ جس نے ان تمام جھوٹے دعوں کو کھوکلا ثابت کردیا ہے جن کے چرچے چہار جانب سنائی دے رہے تھے۔
بہار الیکشن کے دوران اور اس سے قبل ملک میں بد امنی کی فضا عام رہی ہے۔دادری کے اخلاق احمد کو صرف افواہ کی بنیاد پر پتھروں سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا۔چند دن ہی گزرے تھے کہ دلتوں کو زندہ جلایا گیا۔ساتھ ہی چھوٹے موٹے وہ واقعات بھی جنہیں میڈیا میں زیادہ جگہ نہیں ملی اس کے باوجود ملک کے امن و امان کو بگاڑنے کا ذریعہ بنتے رہے۔نتیجہ میں اہل ملک نہایت رنج و افسوس میں مبتلا ہو گئے,پریشان ہوئے اور ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔ناراضگی کے اظہار کا ایک ذریعہ ایوارڈ واپسی تھا،جہاںنہ صرف ادب و لٹریچر کے معروف ترین حضرات شریک ہوئے بلکہ ملک کے سائنسداں،فلم انڈسٹری کے کلاکار،سماجی ایکٹوسٹ اور دیگر بھی پیش پیش رہے۔دوسری جانب بی جے پی اور ان کے حلیف نہ صرف خاموشی اختیار کیے رہے بلکہ بہار الیکشن میں مزید اشتعال انگیزی اختیار کی۔کوئی بی جے پی کی ہار پر پاکستان میں پٹاخے چھوڑنے کی بات کرتا نظر آیا تو کہیں گائے کو سہارابنانے کی کوشش کی گئی ۔الیکشن کمپین میں ‘مقدس گائے’کواشتہارات میں جگہ دی جانے لگی۔نتیجہ میں پہلی مرتبہ بڑے پیمانہ پر الیکشن کمیشن نے نوٹس لیتے ہوئے اشتہارات پر روک لگائی۔
اس پورے پس منظر میں اور اس کے بعد چند باتیں قابل توجہ ہیں۔ایک: کیا ملک میں بڑھتی فرقہ واریت بہار کے نتائج سے کچھ کم ہو سکے گی۔دو:مسلمان اور دیگر اقلیتیں جو مختلف انداز سے متاثر ہیں، کے مسائل اور ان کے حل میں بہار کے نتائج مثبت ثابت ہوں گے۔تین:دہلی کے بعد بہار میں بی جے پی کی بڑی شکست کیا آئندہ ہونے والے اترپردیش اسمبلی الیکشن کے لیے دیگر سماجی یا بہوجن سماجی افراد وگروہ کے لیے نئی حکمت عملی وضع کرنے میں معاون ہوگی۔چار: ترقی و خوشحالی جس کا تذکرہ بہار الیکشن میں بھی کہیں کہیں اور کبھی کبھی سننے کو ملتا رہا ،بہار کے نتائج سامنے آنے کے بعد کیا واقعی ملک ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن ہو سکے گا۔اور آخری بات یہ کہ فرقہ وارانہ فکر کے حاملین کو بہار کے نتائج مزید منظم، منصوبہ بند اور سرگرم ہونے پر مجبور کریں گے یا وہ خاموشی کو غنیمت جانیں گے۔
Muslim
ان تمام صورتوں میں بحیثیت مسلمان ہماری ذاتی ،خاندانی، معاشرتی ،مذہبی اور ملی و ملکی زندگی پر کیا کچھ اثرات رونما ہوئے اور آئندہ ہونے والے ہیں۔کیا ہم منظم ہو ئے ہیں؟بامقصد زندگی کی جانب پیش قدمی کر رتے نظر آرہے ہیں؟ یا منقسم اور تقسیم ہو تے جا رہے ہیں؟ساتھ ہی ہم پر عائد ذمہ داریاں،جن میں بحیثیت داعی سب سے اہم ذمہ داری برادران وطن تک اسلام کی دعوت پہنچانے کی ہے،میں ہم آگے بڑھتے نظر آرہے ہیںیا اس میں غفلت کا شکار ہیں ۔مزید بھی کہ ملک کی تعمیر و ترقی،امن و امان کی بحالی،اور مسائل کے حل میں ہم کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟؟سوالات کے جواب اگر مثبت میں ہوں تو مبروک ،بصورت دیگر ملک میں پنچایت،اسمبلی،اور پارلیمنٹری الیکشن توآتے ہی جاتے رہیں گے۔اس کے باوجود مسائل جو ہر صبح بڑئے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
شاید کہ مستقبل قریب میں ان میں مزید اضافہ ہو۔لہذا ان حالات میں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی حیثیت کو پہچانیں، صلاحیتوں میں ارتقاء بخشیں ،بامقصد زندگی سے وابستہ ہوں،اور ملک و اہل ملک کے لیے دنیا و آخرت میں کامیابی کے حصول کا ذریعہ بنیں۔ممکن ہے بہار الیکشن،اور اس کی سیاسی بساط پر کھیلی جانے والی پاری،اور ریلیاں، احتجاج و دھرنوں کے درمیان یہ باتیں عجیب و غریب محسوس ہوں۔اس کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ جب تک ہم یہ نہیں سمجھ سکیں گے کہ الیکشن کے منفی یا مثبت اثرات جو مرتب ہوتے ہیں، نتائج جو سامنے آتے ہیں، ان میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ساتھ ہی وہ اقوام بھی جو اندرون و بیرون خانہ بری طرح متاثر ہیںاس کے باوجود وہ کیوںغیر منظم و غیر فعال ہیں؟تب تک ہم یہ بھی سمجھ سکیں گے کہ یہ مہاگٹھ بندھن کیوں بنے یا بنتے ہیں اور کیوں ملک کا ایک بڑا طبقہ اخلاق احمد کی موت یا ان جیسے دیگر مسائل میں اظہار رنج و غم میں شریک ہوتا نظر آتا ہے۔ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آئے گی کہ کیوں ملک کے دانشواران و دیگر سوچنے سمجھنے والے وہ حضرات جو خود ووٹ پالٹکس کے عملی میدان میں شریک نہیں ہوتے،ایوارڈ واپس کرتے نظر آرہے ہیں۔
بہر حال ہم ان تمام لوگوں کی خوشی کو متاثر نہیں کرنا چاہتے جو فرقہ پرست قوتوں کے بری طرح ناکام ہونے پر جشن میں مصروف ہیں۔وہیں واقعہ یہ بھی ہے کہ نریندر مودی جن کا انحصار صرف اشتہارات و زبانی جمع خرچ تھا، آج وہ اپنی مقبولیت کھو تے نظر آرہے ہیں ۔یا کم از کم دہلی اور بہار کے الیکشن نے ثابت کردیا ہے کہ وہ اپنی مقبولیت کھو چکے ہیں۔اس کے باوجود ریاست بہار میں بننے والی نئی حکومت،وزراء اور وزیر اعلیٰ کو دہلی جیسی صورت پیدا نہیں ہونے دینا چاہیے۔
جہاں مرکز وریاستی حکومت میں رسہ کشی سامنے آئے ۔مناسب یہی ہوگا کہ ہارنے اور جیتنے والے ،دونوں ہی ایک جگہ چائے پر چرچا کرتے نظر آئیں اور من کی وہ باتیں جو سیاہ ہیں،پراگندہ ہیں،نفرت آمیز ہیں،انہیں عوام کے درمیان سامنے نہ لائیں ۔کیونکہ عوام نے ہی انہیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ایک دوسرے سے اختلافات رکھنے کے باجودوہ عوامی فلاح و بہود کے مسائل اور ان کے حل میں مدد و معاونت کا رویہ اختیار کریں گے۔ساتھ ہی 1.25لاکھ کروڑ کا وہ بڑا پیکیج جس کا اعلان مرکزی حکومت نے بہار الیکشن سے قبل کیا تھا،وہ وعدہ جملہ بن کر نہ رہ جائے کیونکہ عوام وہی،ریاست وہی،ملک وہی اور اہل ملک بھی وہی ہیں،جن کی ترقی و خوشحالی کی باتیں اور وعدہ کیے جا چکے ہیں!
Mohammad Asif Iqbal
تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.co