تحریر: محمد عتیق الرحمن ترکی یورپ اور ایشیا کے درمیان ایک پل کی حیثیت سے قائم ہے۔ ترکی کی سرحدیں 8 ممالک سے ملتی ہیں جن میں شمال مغرب میں بلغاریہ، مغرب میں یونان، شمال مشرق میں جارجیا، مشرق میں آرمینیا، ایران اور آذربائیجان کا علاقہ نخچوان اور جنوب مشرق میں عراق و شام شامل ہیں۔ علاوہ ازیں شمال میں ملکی سرحدیں بحیرہ اسود، مغرب میں بحیرہ ایجیئن اور بحیرہ مرمرہ اور جنوب میں بحیرہ روم سے ملتی ہیں۔
اس حوالے سے ترکی کی حیثیت اور بڑھ جاتی ہے کہ آج کل وہاں پر اسلام پسندوں کا غلبہ ہوچلاہے جس کی وجہ سے اسلام دشمنوں کو بھیانک خواب نظر آتے ہونگے۔ترکی سے مسلمانان ہند کی محبت کی وجوہات میں وہاں پر خلافت کاکسی دور میں ہونا بھی ہے جس کی وجہ سے آج بھی پاکستانی ترکی سے جذباتی محبت کا اظہارکرتے ہیں ۔پاکستان بننے سے پہلے مسلمانان برصغیر اسی حوالے سے تحریک خلافت چلاچکے ہیں جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمان کہیں بھی ہوں ان کے دکھ سکھ سانجھے ہوتے ہیں ۔اس لئے جہاں اس بار انتخابات میں جسٹس اینڈڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی)کی تاریخ ساز کامیابی سے اہل ترک خوش ہیں وہیں ان کی خوشی پاکستان میں بھی محسوس کی جا رہی ہے۔
Turkey Elections
اگر پاکستانی تناظر میں حالیہ ترکی انتخابات کو دیکھاجائے تو یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ گذشتہ 13سالوں سے حکومت کرنے والی پارٹی اس بار 49.4% ووٹ لینے میں کامیاب ہوکر اکیلی حکومت بنانے کے قابل ہے کیونکہ پاکستانی سیاست کا امیج ہے کہ جو ایک بار آگیا وہ دوسری بار اگلے کی باری کے بعد ہی آئے گااور وہ بھی دوسرے کے کندھے کا سہارالے کر ۔بی بی سی کے مطابق 13 برس سے برسراقتدار جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ ( اے کے پارٹی) کے متعلق یہ تو سب جانتے تھے کہ وہ سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئے گی اور یہ پیشن گوئیاں بھی کی جارہی تھیں کہ شایدگذشتہ پانچ ماہ کے مقابلے میں پارٹی کے ووٹ بڑھ جائیں لیکن 50 فیصد کے لگ بھگ ووٹوں کے حصول کا کسی کوبھی اندازہ نہیں تھا۔پچھلے انتخابات کے مقابلے میں اس بار’’ اے کے پارٹی‘‘ کے ووٹوں میں ساڑھے آٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اگر بات کی جائے کہ وہ کون سے عوامل تھے جن کی وجہ سے’’ اے کے پی‘‘ کامیاب ہوئی تو وہ درج ذیل ہوسکتے ہیں ۔رائے دہی کا بلند شرح (90%)پر ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ کو ہی ہوا ۔پارٹی کا وسیع نیٹ ورک حامیوں کو ووٹ ڈالنے کے لئے گھروں میں سے نکالنے پر کامیاب ہوا۔پچھلے انتخابات میں قوم پرست پارٹی ایم ایچ پی کاکسی دوسری جماعت کے ساتھ مل کر نہ بیٹھنا بھی اس کے ووٹروں کے دوسری طرف جانے کا سبب بنا۔اس جیسے دوسرے عوامل سمیت سب سے بڑے عامل کو اگر دیکھا جائے تو وہ یہ ہے کہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو بطور اسلام پسنداہل ترک پسند کررہے ہیں ۔جس کا ثبوت حالیہ انتخابات ہیں۔
انتخابات جیتنے کے بعد ترکی کے صدر طیب رجب اردگان نے اپنے ایک بیان میں دنیا پر زور دیا ہے کہ وہ انتخابات کے نتائج کا احترام کرے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ بد امنی کے بعد رائے دہندگان نے استحکام کا انتخاب کیا ہے۔لیکن مجھے اب تک دنیا میں کہیں سے بھی ایسی کسی سیاسی بلوغت کا مظاہرہ نظر نہیں آیا۔’’شاید ان کا اشارہ ان جمہوریت پسندوں کی طرف تھا جو اسلام پسندوں کو کارسازحکومت سے دوررکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے ترکی کی عوام سے اپیل بھی کی ہے کہ آئیے ہم سب مل کر ایک ہوجائیں اور مل جل کر ایک ترکی بن جائیں انہوں نے میڈیا کے جانب سے خود پر کی جانے والی تنقید کو بھی نشانہ بنایا۔ مصطفی کمال پاشا اتا ترک کے ذریعے ترکی کی اسلامی خلافت کا خاتمہ کئے جانے کے بعد اور ترکی سے اسلام کے تمام تر نقوش کو مٹانے کی کاوشوں کے درمیان 1980ء کے اوائل میں نجم الدین اربکان نے اسلامی سیاست کے خطوط کو ترکی میں واپس لانے کی جو کوشش ملی گورش کے قیام کے ذریعہ شروع کی تھی ، طیب رجب اردگان اسی کاوش کا ایک نتیجہ ہے۔ا پنے دور حکومت میں اردگان ہمیشہ عالمی میڈیا کی تنقید کا شکار رہے ہیں اس بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ ترکی کو سیکولرز م سے اسلام کی جانب واپس لے جانے کیلئے کوشاں رہے ہیں یہ انہی کی کوششوں کا ثمرہے کہ آج ترکی کے پانچ کروڑ چالیس لاکھ ووٹران میں سے نصف نے ایک اسلام پسند جماعت کی حمایت میں ووٹ کیا ہے ۔جس سے ترکی کے بدلتے ہوئے معاشرے کی تصویر کو سمجھا جا سکتا ہے۔
Recep Tayyip Erdogan
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی کامیابی کی بازگشت فلسطین ، بیت المقدس اور غزہ میں سنائی دے رہی ہے۔حماس کے سیاسی بیورو کے نائب سربراہ اسماعیل ہانیہ نے ترکی صدر رجب طیب اردگان کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کی اور عام انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی کامیابی پر مبارکباد پیش کی اورکہاکہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی کامیابی ترکی کے اتحاد ، تحفظ اور جمہوریت کی کامیابی ہے۔حماس کے سیاسی بیورو کے رکن عزت رشک کاکہناتھا کہ’’ جسٹس اینڈ دویلپمنٹ پارٹی کی کامیابی بیت المقدس اور غزہ کی کامیابی ہے۔
اخوان المسلمین کا کہنا تھا کہ ’’آج ہونے والے انتخابات مصر، شام اور ان کے عوام کے ارادے اور جمہوری انتخابات کی مخالفت کرنے والی علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں اور اسرائیل کے لئے خوبصورت ترین جواب ہے”۔پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی ترک صدر طیب اردگان اور وزیراعظم احمد داؤد کوٹیلی فون کرکے انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد دی۔پاکستان میں اسلام پسند جمہوری پارٹی جماعت اسلامی سندھ کے امیر ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے طیب اردگان کی پارٹی کی کامیابی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ جیت عالم اسلام کے مظلوموں کی جیت ہے ۔عالمی طاقتوں کے گٹھ جوڑاور سازشوں ،عالمی ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈہ کے باوجود اسلام پسندوں کی جیت اصل میں اسلام کی جیت ہے جس سے عالم اسلام کی تمام اسلامی تحریکوں کو ایک نیاولولہ اورجذبہ حاصل ہوگا۔