رحیم یار خان : سینئر بینکار اور معاشی تجزیہ نگار ممتاز بیگ نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے 502 ملین ڈالر 50 ارب 21 کروڑ روپے قرض کی دسویں قسط وصول کرنے کیلئے 40 ارب روپے کے مزید نئے ٹیکس لگانا ہمارے براہ راست ٹیکس ادا نہ کرنے اور ٹیکس چوری جیسے رویوںکے باعث حکومت کی مجبوری ہے ۔جن ملکوں نے غیر ملکی قرضوں سے اپنی معیشت کو بہتربنانے کی کوششیں کی ان کا دیوالیہ نکل چکاہے۔
زرمبادلہ کے 20 ارب ڈالر کے ملکی ذخائر بھی وطن عزیز میں مہنگائی، غربت و افلاس اور بیروزگاری،ب جلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی اور زراعت، صنعت، تجارت ،ٹرانسپورٹ اور توانائی جیسے شعبوں میںخاطرخواہ بہتری نہ لاسکے۔ حکومت براہ راست اور بلواسطہ ٹیکسوں اور محصولات کے اہداف کے حصول میںناکامی پر اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے غیر ملکی مالیاتی اور آئی ایم ایف جیسے سامراجی اور استحصالی اداروںکی محتاج ہو چکی ہے ۔قرض دینے والے اداروں کوغریب عوام کی بجائے سامراجی ڈونرز ملکوںکے مفاداورایجنڈے پر عمل پیراہونا ہوتاہے۔
وطن عزیز کا ہر فرد اس وقت ایک لاکھ تین سواڑتیس روپے کا مقروض ہے اور ان اداروں کے چنگل سے نکلنے کیلئے حکومت کو ٹیکسوں کی وصولی کا نظام آسان اور بہتربنانے کے ساتھ مالدار لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا، ملکی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ اور بیرونی ادائیگیوں کے توازن میں خسارہ ختم کرکے ملک کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنا اور عوام کو ٹیکس چوری سے گریز اور براہ راست ٹیکس اداکرنے کا کلچر اپنانا ہوگا ۔ 7 لاکھ مالدار لوگوں کا ڈیٹا نادرا کے پاس محفوظ ہے۔
ایف بی آراس ڈیٹا کو استعمال کرکے انہیں ٹیکس نیٹ میں لاکر ملکی آمدن میں اضافہ اوربیرونی قرضوں پر انحصار کم کر سکتاہے ۔بڑے سرمایہ داروں، جاگیر داروں ،صنعت کاروں، تاجروںک و ایمانداری سے اپنی آمدنی پر رضاکارانہ طورپراپنے حصہ کا ٹیکس بھی ادا کرنا ہوگا بصورت دیگر بیسیوں قسم کے بلواسطہ ٹیکسوں کی ادائیگی کے علاوہ ہماری اگلی کئی نسلوں تک کے پیدا ہونے والے بچے بھی مقروض اور غلام ہی جنم لیں گے۔