تحریر: سعیداللہ سعید مینگورہ سوات بھارت کے عام انتخابات میں جیت کے بعد نریندر مودی کا وزارت عظمیٰ جیسے اہم منصب پر فائز ہونات جزیہ نگار نہ تو خطے کے لیے نیک شگون قرار دے رہے تھے اور نا ہی ہندوستان کے لیے۔ کیونکہ وزارت عظمٰی کے قلم دان سنبھالنے کے بعد مسٹر مودی کا جو روپ سامنے آیا ہے وہ انتہائی خطرناک اور تباہ کن ہے۔ اس بات میں کسی شک کی گنجائش ہی کیا کہ ہندوستان میں جو بھی پارٹی برسراقتدار آتی ہے ان کی یہ کوشش ضرور ہوتی ہے کہ پاکستان کو دبائو میں رکھا جائے۔لیکن جو منفی رویہ مسٹر مودی نے اختیار کیا ہے اس کی نظیر ماضی میں کہیں نہیں ملتی اور اس بات کاا ندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعدپاکستانی سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ ہندوستانی افواج کا روز کا معمول بن چکا ہے۔ دوسری طرف مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد جہاں ایک طرف نچلی ذات کے ہندوئوں کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے تو وہی اقلیتیں بھی مکمل طور پر عدم تحفظ کی شکار نظر آتی ہے۔ اقلیتوں میں بھی اگر مسلمانوں کی حالات زار کا جائزہ لیا جائے تو وہ مکمل طور پر بے یار ومددگار نظر آتے ہیں جہاں ان پر ظلم و ستم روز کا معمول بن چکا ہے۔
کیونکہ بھارت کی انتہاپسند جماعتوںکا یہ منشور ہے کہ مسلمان یا تو اپنا مذہب چھوڑ کر ہندو بن جائے بصورت دیگر ملک چھوڑ دیں یا پھر موت کو گلے لگانے کے لیے تیار ہوجائیں۔ ایسے میں اوالذکر دونوں کام ممکن نہیں لہٰذا ہندوستانی مسلمان ہر لمحہ خوف اور لاچارگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ایک عام مسلمان پر ہندوستان میں جو گزررہی ہے وہ ایک طرف۔ ہندوستان کے انتہاپسندوں کی چیرہ دستیوں سے عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے سپر سٹار اداکار شارخ خان بھی محفوظ نہیں اور ان کو آئے روز طرح طرح کے طعنے دئیں جارہے ہیں۔ایک ایسے وقت کہ جب ہندوستان کی اقلیتیں شدید عدم تحفظ کے شکار ہے۔ بھارتی ریاست بہار کے ریاستی انتخابات میں مودی حکومت کی شکست کوتجزیہ نگار ایک امید کی کرن کے طور پر دیکھ رہے ہیں کیونکہ ان انتخابات میں انتہا پسندی کے پرچار کرنے والوں کو سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑاہے۔
Bihar Elections
تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست بہار کے اسمبلی انتخابات میں برسراقتدار بی جے پی اور اس کے حمایتیوں کو وہاں کی عوام نے مکمل طور پر مسترد کردیا ہے جبکہ ان کے مدمقابل نتیش کمار کے راشٹریہ جنتا دل اور لالو پرساد یو کے راشٹریہ جنتا دل یونائیٹڈ اور اس کے اتحادیوں کو بھاری تعداد میں ووٹ دے کر ریاست کے باگ ڈور ان کے ہاتھ میں تھمادیئے ہے۔ انڈیا کی سیاست پر نظر رکھنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ 243 کے ایوان میں محض 59 نشستیں حاصل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ریاستی عوام کو بی جے پی اور اس جیسے دیگر انتہا پسند تنظیموں کے منشور اور پالیسیوں سے کوئی سروکار نہیں۔
انتخابی نتائج کے بعد لالوپرساد نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بی جے پی کا مزید رہنا ملک توڑنے کے مترادف ہے ۔ انہوں یہ بھی کہا کہ بہار کی عوام نے مودی کی پالیسیاں مسترد کردی ہے اور اب ان کو گجرات واپس جانا ہوگا۔ جنتا دل اتحاد کے ایک اور رہنماء نتیش کمار نے بھی زبردست کامیابی پر عوام کا شکریہ ادا کیا ہے۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اور رہنماء عام آدمی پارٹی اروند کچریوال اورکانگریس کے رہنماء راہول گاندہی نے بھی اپنے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ بھارت میں نفرت کی سیاست کی کوئی جگہ نہیں اور ہندئوں کو مسلمانوں سے لڑاکر کوئی بھی نہیں جیت سکتا۔
Extremism
یہ بات یقیناً باعث طمانیت ہے کہ ریاست بہار کی عوام نے نفرت کے بیج بونے والوں کو مسترد کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ انتہا پسند ہے اور نا ہی انتہا پسندی پر یقین رکھتے ہیں۔ اب یہ منتخب ہونے والی پارٹیوں کے رہنمائوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے خود بھی تعصب سے باز رہیں اور ملکی سطح پر بھی بھائی چارے کی فضاء قائم کرنے کی کوشش کی جائے ۔ تاکہ آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں بھی انتہاء پسندوں کی راہ روکی جائے اور مجھے امید ہے کہ جیتنے والا اتحاد ضرور اس بارے اقدامات اٹھائیں گے۔ لیکن اگر اتحاد نے اپنے منشور سے روگردانی کی تو پھر اس یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ آج جس انتہا پسندی کوانہوں نے شکست دی ہے۔
کل کو اسی انتہا پسندی کا لیبل ان پر بھی چسپاں ہوسکتا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ لیبل ان پر چسپاں نہ ہوجائے کیونکہ اتحاد میں شامل بھارت کی سابق حکمران جماعت انڈین نیشنل کانگریس ایک ایسی جماعت ہے کہ جس کا رویہ بھی مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ معتصبانہ رہا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت اور اس کے ذمہ داروں کو کھلی چھوٹ اس بات کا غماز ہے کہ جب تک انڈین نیشنل کانگریس اپنے کردار سے ثابت نہیں کرتی کہ ان کا اب تعصب اور نفرت سے کوئی تعلق نہیں۔تب تک ان پر اعتبار کرنا ناممکن اگر نہیں تو مشکل ضرور ہے۔