تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم اِس سے انکار نہیں کہ عزت وذلت کا معاملہ تو خدا کے ہاتھ ہے جو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جِسے چاہتاہے ذلت سے دوچار کر دیتا ہے مگر یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج ایسا لگتا ہے کہ جیسے جدید سائنسی دورکے اِنسانوں کے معاشرے میں اکثر ناسمجھ اِنسان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جِسے چاہیں عزت دیںاور یہ جِسے چاہیں ذلیل کر دیں آج کے زمانے کے معاشرے اور سوسائٹی کے اِنسانوں کی اِسی خودپسندانہ سوچ اور رویئے ہی نے معاشرے کا نظام بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
بیشک..!! مجھے اپنے پیداکرنے والے ربِ کائنات اللہ رب العزت کی ذات پر یقین ہے کہ عزت اور ذلت کا معاملہ اللہ رب العزت کے ہاتھ ہے اِنسان تو بس یوںہی ہیںیہ نہ تو اپنے لئے خود سے کچھ کرسکتے ہیں اور اِن میں نہ ہی دوسروں کے لئے کچھ کرنے کی ہمت ہے جس روز اِس زمانے اور میرے معاشرے کے اِنسانوں نے یہ بات سمجھ لی تو خداکی قسم میرے زمانے میرے مُلک اور میری تہذیب کا ہر فرد باعزت طریقے سے جی سکے گا اور دنیا امن و آشتی اور سکون اور راحت کا عظیم گہوارہ بن جائے گی پھر نہ کوئی کسی پر دھاندلی کا الزام لگائے گا اور پھر نہ کوئی اسپیکر کے عہدے سے یوں ہٹے گا جس طرح سے ہٹااور پھرانتخابات ہوئے اور پھروہ جیت کر باعزت بحال بھی ہوا اور آج دھاندلی کاالزام لگانے والے بغلیں جھانکتے پھر رہے ہیں۔
بہرکیف ..!!اَب یہاں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ کہتارہوں گا سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے،نہ تو میں حکمرانوں، سیاستدانوں کی طرح مفادپرست ہوں اور نہ ہی میری ذات مصالحت پسندی اور مفاہمت پرستی کی گھٹی میں ڈوبی ہوئی ہے نہ ہی مجھے کبھی مسائل پر تیرچلانے والی ماضی کی (پاکستان پیپلز پارٹی کی) حکومتوں نے کچھ دیاہے اور آج نہ ہی میری ذات پر کبھی شیرکے نشان ساتھ حکومت کرنے والے موجودہ (ن لیگ کے )حکمرانوں نے کرم نوازی کی ہے اور اِسی طرح گلی گلی اور قریہ قریہ بلااُٹھاکر(مسائل حل کرنے کے دعویدار اور نیا پاکستان بنانے کے لئے چکے چھکے مارنے والے پاکستان تحریک انصاف ) والوں نے مجھ سے کبھی دوبول ہمدردی کے بولے ہیں اور نہ ہی مجھ سے کبھی کراچی کے عوامی اور سیاسی مسائل کے فوری حل کے لئے ہمیشہ لکھنے پر کبھی آسمان پر ہری ، لال اور سفید رنگوں والی پتنگیں اُڑانے والوں (پاکستان متحدہ قومی موومنٹ ) کی اعلیٰ قیادت نے رابطہ کیا ہے۔
Pakistan Tehreek-e-Insaf
الغرض یہ کہ میرے اچھے اور اصلاحی تنقیدوں سے لبریز کالمز توہمیشہ ہی سے سب کے لئے ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے مگر افسوس تو اِس بات کا ہے کہ کبھی بھی کسی کی بھی جانب سے حوصلہ افزائی کے میرے لئے دولفظ اور ایسے جملے نہیں آئے ہیں کہ جن سے میں اور مجھ جیسے بہت سے نئے لکھاری کم ازکم یہ تو سمجھیں کہ جن کے لئے ہم اپنے خونِ جگر سے کالمز لکھتے ہیں وہ اِنہیں پڑھتے بھی ہیں کہ نہیں ..؟؟ اور وہ اِنہیں پڑھنے کے بعد ہمیں کس حیثیت میں رکھتے ہیں..؟؟ یا مجھ جیسے لکھنے والے اِن کی نظر میں کیا اور کیسے ہیں..؟؟ ابھی تک تو میں اور مجھ جیسے بہت سے لکھاری یہ سمجھتے ہیں کہ جن حکمرانوں، سیاستدانوں اور جماعتوں اور حکومتی حلقوں کے لئے ہم لکھتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے میری اور مجھ جیسے بہت سے لکھنے والوںکی حیثیت بس… اِن کی ردی کی ٹوکری میں پڑ ے کاغذ کے چند ٹکڑے جتنی ہے اور باقی صرف نامی کرامی اور معروف لکھاری ہی تیر،شیر ،پتنگ، بلااور ترازوکے نشان والی برسرِ اقتدار آنے والی جماعتوں کے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور سرکاری اداروں اور حکومتی حلقوں کے لئے مشعلِ راہ ہیں ا ور وہی اِن کے سر کے تاج ہیں …مگر پھر بھی میں اور مجھ جیسے بہت سے نئے کالم نویس ہمت نہیں ہاریں گے اور ہم اپنے زورِ قلم سے بِلاکسی ذاتی اور سیاسی مفادات کے سب کے لئے یوں ہی اپنے کالم لکھتے رہیں گے کیوںکہ میں یہ سمجھتاہوں کہ آخرکسی نہ کسی دن تو میری اور مجھ جیسے بہت سے نئے کالم نویسوں کی محنت ضروررنگ لائے گی اور شیر، تیر پتنگ ،بلا ، ترازو کے نشانوں والی جماعتوں اور سرکاری اداروں اور حکومتی حلقوںکی جانب سے ہمارے لئے بھی حوصلہ افزائی کے دولفظ اور ایک جملہ ضرور آہی جائے گاجس سے ہمیں بھی تقویت ملے گی اور ہمارابھی حوصلہ بلند ہوگا۔
بہرحال …!!ویسے تو اِنسا ن بنیادی طور پر امن پسند اور محبت کرنے والا ہی پیداہواہے مگرجہاں زمانے کے حالا ت اور لوگوں کی بیجاتنقیدیں اُسے ضدی اور خود غرض بنا دیتی ہیں تووہیں لوگوں کے سخت رویئے بھی اُسے انتقام پسند وبے حس اور ظالم بنادیتاہے، موجودہ اسمبلی میں سابق اسپیکر سے پھر موجودہ اسپیکر کا لقب پانے والے سردار ایاز صادق کے ساتھ بھی کچھ ایساہی ہوااِنہیںبھی سیاسی انتقام کی آگ میں پہلے بھسم کرنے کی کوشش کی گئی (گوکہ آج ایساکرنے والے اپنے مقصد میں لاکھ جتن کرنے کے باوجود بھی کامیاب نہی ںہوئے )پھرایساہوااور دنیا نے خود دیکھ لیا کہ آگ لگانے والے خود ہی اپنی لگائی ہوئی آگ میں جل بھن کر خاک ہوگئے جب گزشتہ دِنوں قومی اسمبلی میںاسپیکرکے عہدے کا انتخاب انتہائی تزک و احتشام اور نہایت ہی پُرامن ماحول میں منعقدہواجس میں 342کے ایوان میں اور مسلم لیگ(ن) کے اُمیداوارسردارایاز صادق دوتہائی اکثریت سے 268ووٹ لے کردوسری مرتبہ باعزت طریقے سے قومی اسمبلی کے 20ویں اسپیکرمنتخب ہوگئے تاہم یہاں یہ امرقابلِ تحسین ہے کہ اِس مرتبہ اِنہیں پہلے سے 20ووٹ زائد ملے ہیں۔
Elections
جبکہ اِن مدمقابل اِن پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاکر اسپیکر کے پہلے عہدے سے ہٹانے والی جماعت پی ٹی آئی کے اُمیدوار رکن قومی اسمبلی شفقت محمودکو31ووٹ ملے تاہم ایک ووٹ ضائع ہوا342کے ایوان میں تین سو ووٹ پول ہوئے قائم مقام اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے نتائج کا اعلان کیا اور نومنتخب اسپیکرسردارایاز صادق سے عہدے کا حلف بھی لیا جس پر ایاز صادق نے اللہ کا شکراداکرتے ہوئے کہاکہ” میرے اللہ نے مجھے اِس سیٹ پر دوبارہ بٹھادیاہے سب کو ساتھ لے کر چلوں گا“جس پر شفقت محمود نے کہاکہ” اُمیدہے کہ اسپیکرجمہوریت کو آگے بڑھانے میںاپناکرداراداکریںگے،اِن کا کہناتھاکہ ہماری جنگ سردارایازصادق کے خلاف نہیں نظام سے ہے “ شفقت محمود کی یہ ساری باتیں اپنی جگہہ ٹھیک مگر بھائی کسی کی یوں بھی بگڑی تو نہ اُچھالوکہ لوگوںکی عزت کا جنازہ ہی نکل جائے آپ اور آپ کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین و سربراہ عمران خان نے تو نظام کے خلاف گھمسان کارن چھیڑرکھاہے کہ اللہ کی پناہ یہ اِس جنگ میں یہ اتنے جذباتی ہوجاتے ہیں کہ یہ اپنے گریبان میںجھانکے بغیرہی دوسروں کی عزتوں کا ایسے جنازہ نکالتے ہیںاِنہیں دیکھ کر ایسالگتاہے کہ جیسے کہ اِنہیںلوگوں کی عزتوںکا جنازہ نکالنے اور اِسے سربازاربے گوروکفن چھوڑ بھاگنے کا ٹھیکہ مل گیاہے یہ جب اور جہاں چاہیں اور جس طرح سے چاہیں لوگوں کی عزتوںکا جنازہ نکال دیں اور جب کوئی اِن سے ایساکرنے سے متعلق کوئی سوال کرے یا روکنے کی کوشش کرے تو یہ لٹھ لے کر اِس کے بھی پیچھے پڑجائیںاور اِس کی بھی عزت کا جنازہ پل بھر میںیوں نکال دیںکہ بیچارہ بے بس ہوکررہ جائے اور جب کہیں سے دباو ¿ آئے تو پھر پی ٹی آئی کی قیادت ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لے ..یہ تو ایساکرکے خود کو بچالیتی ہے مگر اُس کا کیاہوگا..؟؟جس کی عزت کا پی ٹی آئی کی قیادت نے جنازہ نکالاتھا۔
مگراَب پی ٹی آئی والوں سمیت اُن جماعتوں کے قائدین اور اِن کے ادناو اعلیٰ عہدیداروںاور کارکنان کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ عزت اور ذلت کا معاملہ اللہ نے اپنے ہاتھ میںرکھاہواہے جس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ آج ایک مرتبہ پھر سردارایازصادق قومی اسمبلی کے اسپیکرمنتخب ہوگئے ہیں اور دوبارہ تزک واحتشام سے اپنے عہدے کی ذمہ داریاں احسن طریق سے انجام دے رہے ہیں اگر ایساہی کچھ ہوتاجیساکہ پی ٹی آئی والوں نے اِن پر الزام لگاکر اِ ن کے عہدے اور اِن کی عزت کا جنازہ نکالاتھاتو میرا، آ پ کا اور اُن سب کا خالقِ کائنات اللہ رب العزت کبھی بھی سردار ایاز صادق کو دوبارہ ضمنی انتخاب میں کامیاب نہ کرتااور پھر قومی اسمبلی کا اسپیکرمنتخب نہ کرتااور سردارایاز صادق اپنے عہدے قومی اسمبلی کے اسپیکرکی حیثیت سے کبھی بھی بحال نہ ہوتے…یہ ایک بہترین مثال ہے اُن لوگوں کے لئے جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جِسے چاہیںعزت دیں اور جِسے جہاں اور جیسے چاہیں ذلیل کردیں۔اَب اِنہیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ بس عزت اور ذلت دینے اور لینے کامعاملہ اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔