تحریر : شجاع اختر اعوان ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 80 کروڑ افراد بھوک کا شکار ہیں اور ایسے ممالک میں پاکستان کا 11 واں نمبر ہے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں خوراک کے بارے میں صورتحال تشویش ناک ہونے کے ساتھ ساتھ سنگین بھی ہے۔ پاکستان میں تقریبا چار کروڑ افراد غذائی قلت کا شکار ہیں۔
گزشتہ 65 سے زائد برسوں کے دوران حکمرانوں نے غریب عوام کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے۔ تھر کی مثال سامنے ہے جہان گزشتہ دو سالوں میں غذا ئی قلت اور بھوک کے باعث سینکڑوں اموات ہوئیں وطن عزیز کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں بعض ایسے بھی ہیں جنہیں فاقے کاٹنے پڑرہے ہیں۔ مسلسل غربت سے تنگ آکر بچوں کو قتل تک کر دینے کی مثالیں ہمارے معاشرے میں بکھری پڑی ہیں۔ مگر حکمران غربت کے خاتمے کے لیے بہتر پالیساں اور اقدامات کرنے کے بجائے صرف زبانی جمع خرج پر ہی اتفاق کرتے ہیں۔
Poor People
ان کو غریب عوام کے حالات زندگی سے کوئی سرو کار نہیں ایسی پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ اور غربت کے بجائے غریبوں کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں پانچ کروڑ افراد خط غربت سے نیچے انتہائی کسم پرسی کی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں۔ حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات ، بدامنی اور مہنگائی کی وجہ سے بھی آئے روز غربت میں اضافہ ہو رہاہے۔
عام آدمی کی آمدنی بڑھنے کی شرح کم اور روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ حکومت کی طرف سے گزشتہ دو سالوں میں غربت مکائو پروگرام پر خرچ کیئے جانے والے 41کھر ب روپے نہ جانے زمین کھا گئی یا آسمان نگھل گیا۔ صورت حال جوں کی توں ہے کیونکہ غربت میں اضافے کے ساتھ ساتھ عوام کی قوت خرید میں بھی کمی ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان کی 60فیصد آبادی غریب ہے اور ایک عام آدمی کی آمدنی کا 48فیصد خوراک پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔
مہنگائی کے نشتر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام پر برستے رہتے ہیں۔ اور مہنگائی کے فروغ کے لیے منافع خوروں اور گراں فروشوںنے سر دھڑ کی بازی لگا رکھی ہے۔ حکومتوں کی طرف سے ان کا راستہ روکنے کی کوشش نہیں کیا جارہی حکمران طبقہ مہنگائی پر قابو پانے کی بجائے صرف معیشت کی ترقی کے دعوے کرتا دکھائی دیتا ہے۔ حکمران طبقہ غربت و افلاس کے خلاف صرف سیمنار کروانے ، فائیو سٹار ہوٹلوں پر مقالے پڑھنے اور غربت اور مہنگائی کے عالمی دنوں پر واک کا اہتمام کر کے فوٹو سیشن اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں مصروف نظر آتا ہے۔ مگر عملی اقدامات نہیں کیے جاتے اور اسی وجہ یہ ہے کہ غربت اور مہنگائی سے گزرنے کا تجربہ ان لوگوں کے پاس نہیں ان کو مال و متاع کے ہوتے ہوئے ان چیزوں کا احساس نہیں کہ بھوک کیسا عذاب ہے۔
Inflation
حکمرانوں کو چاہیے کہ میٹرو بس ، اورنج ٹرین و دیگر کئی بڑے منصوبوں پر فضول رقم خرچ کرنے کے بجائے مہنگائی اور غربت کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں ۔ملک بھر میں بند صنعتوں اور کارخانوںکا بحال کروائیں ان کو ٹیکس فری کریں اور مراعات دیں۔ نئے انڈسٹریل اسٹیٹ قائم کیئے جائیں تاکہ عوام کو روزگار کے مواقع میسر آئیں۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اس کی زراعت کو ترقی دینے کے اقدامات کیئے جائیں کیونکہ آنے والا وقت زراعت کا ہے دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر تمام اقوام اس بات پر متفق ہیں کہ آنے والے دور میں غربت و افلاس اور مہنگائی کو زراعت ہی سنبھالا دے گی۔ اور جس ملک میں زراعت کا شعبہ ترقی کر ے گا وہاں کے عوام میں خوشحالی عام ہو گی۔ عوام کو آئے روز مہنگائی ، غربت ، افلاس کاشکار کرنے اور قومی خزانہ غلط منصوبوں پر خرچ کرنے والے حکمرانوںکو حقیقی خادم اعلی امیر المومنین حضرت عمر فاروق کا یہ قول بھی یا د رکھنا چاہیے کہ”اگر دریائے دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر گیا توروز آخرت مجھ سے اس کی پوچھ گچھ ہو گی۔