ٹھٹھرتے زلزلہ متاثرین کی بے بسی

Earthquake Victims

Earthquake Victims

تحریر: مہر بشارت صدیقی
زلزلہ کی تباہی، بے سروسامانی اوراس پر شدید سردی، کھلے آسمان تلے گزارنے والے بہت سے متاثرین امداد پہنچنے کے منتظر ہیں۔ وقت کے ساتھ سامنے آتی تباہی سے نمٹنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ جن علاقوں میں زیادہ جانی نقصان ہوا ان میں شانگلہ، سوات، چترال، تورغر، خیبرایجنسی اور لوئر اوراپر دیر شامل ہیں۔ 26 اکتوبر کے زلزلے میں خیبر پختونخواہ میں زیادہ ہلاکتیں اور تباہی ہوئی۔

خیبر پی کے حکومت اپنے وسائل کے مطابق متاثرین کو ریلیف پہنچانے کیلئے سرگرم ہے مگر ابھی تک کئی علاقوں میں امداد نہیں پہنچ سکی۔ متاثرہ علاقوں میں سردی کی شدت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔زلزلے سے متاثرہ یونین کونسل رانیال شانگلہ میں شدید سردی سے 5 ماہ کا بچہ جاں بحق ہو گیا۔ شانگلہ اور گردونواح میں بارش جبکہ پہاڑوں پر برفباری ہورہی ہے۔ خیموں میں مقیم زلزلہ متاثرین شدید سردی سے بیمار ہورہے ہیں۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید احمد شاہ نے وزیر اعظم محمد نواز شریف اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک سے صوبے کے زلزلہ متاثرہ علاقوں میں تین تین دن کیمپ لگانے اور متاثرین کے مسائل کو براہ راست سننے کا مطالبہ کر دیا۔

Khurshid Shah

Khurshid Shah

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ زلزلہ متاثرین اور بے گھر افراد کے حالات انتہائی مخدوش ہیں، لوگ سردی اور بھوک سے مر رہے ہیں، کسی کو ٹھٹھرتے متاثرین کی کوئی پروا نہیں۔ وزیراعظم تمام منصوبوں کو ترک کر دیں اور تمام وسائل آئی ڈی پیز اور زلزلہ متاثرین کی بحالی کیلئے بروئے کار لائیں۔ سردی سے ایک بچہ بھی مرا تو ذمہ دار حکومت ہو گی، کسی بھی صوبے کا وزیر اعلیٰ پشاور کی ٹھنڈ میں بیٹھ کر دکھائے تب احساس ہو گا۔ اورنج ٹرین یا موٹر وے سے کیا ہو گا؟ دنیا ہنس رہی ہے کہ بھوکے ننگے لوگوں کی ترجیحات کیا ہیں۔ ایمرجنسی لگا کر تمام پراجیکٹ بند کیے جائیں اور زلزلہ زدہ علاقوں پر توجہ دی جائے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ چترال ، بونیر، دیر سب پاکستان ہے ، وہاں کے بچوں کا بھی حق ہے کہ انہیں لاہور جیسی سہولیات ملیں۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں این ڈی ایم اے کا کوئی نمائندہ نہیں گیا۔ سوات، ملاکنڈ اور دیر کو خصوصی اقتصادی پیکیج دیا جائے۔

متاثرین زلزلہ کیلئے پاکستان نیوی کا ریلیف آپریشن جاری ہے۔ ترجمان پاک بحریہ کے مطابق 20 ٹن امدادی اشیا کی ایک اور کھیپ سوات پہنچادی گئی۔ سوات کے علاقوں سلام پور، غلیگے، کبل اور بحرین میں امدادی اشیا تقسیم کیں۔ لوئر دیر کے علاقے تالاش کے متاثرین زلزلہ میں امدادی سامان تقسیم کیا گیا۔ ریلیف ٹیمیں متاثرین زلزلہ میں 63 ٹن سے زائد امدادی اشیا تقسیم کر چکیں ہیں۔ امیر جماعةالدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید کہتے ہیں کہ جماعة الدعوة نے زلزلہ متاثرین کو سخت سردی سے بچانے کیلئے گھروں کی تعمیر شروع کر دی۔آئندہ چند دنوں میں 500گھروں کی تعمیر مکمل کر لی جائے گی۔

Earthquake Victims Relief

Earthquake Victims Relief

لاہور سے 1کروڑ 10لاکھ روپے مالیت امدادی سامان کی دوسری کھیپ بھجوا دی۔سندر فیکٹری سانحہ پرجماعةالدعوة کو امدادی کاروائیوں سے نہ روکا جاتا تو مزید بہت سے لوگوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی تھیں۔فلاح انسانیت اور جماعةالدعوة کی تشہیری مہم پر پابندی کیخلاف جلد عدالت سے رجوع کریں گے۔ زلزلہ متاثرہ علاقوں میں سخت سردی کی وجہ سے خیمے آئندہ دنوں میں کام نہیں دیں گے۔ اس وقت وہاں جستی چادروں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ زلزلہ زدہ علاقوں میں ہم گھروں کی تعمیرکے عمل کو مزید تیز کر رہے ہیں۔ متاثرین میں جستی چادریں، خیمے اور گرم بستر و کمبل بھی تقسیم کئے جارہے ہیں۔

ہزاروں خاندانوں میں خشک راشن تقسیم اور 25ہزار سے زائد مریضوں کو طبی سہولیات فراہم کی گئیں۔ ڈیڑھ ہزار سے زائد خیمے تقسیم کئے گئے۔ ہزاروں رضاکار، میڈیکل ٹیمیں اور ایک سو سے زائد ایمبولینس گاڑیاں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ سندر فیکٹری سانحہ پر جماعةالدعوة کے رضاکاروں نے سرنگیں کھود کر کئی لوگوں کو ملبے سے زندہ نکالا لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ انہیں امدادی کارروائیوں سے روک دیا گیا۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ انسانیت کا مسئلہ ہے سب کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن اور جماعةالدعوة کے رضاکار جس طرح سرنگیں کھود کرملبے تلے افراد کو نکال رہے تھے انہیں روکا نہ جاتا تو مزیدکئی مزدوروں کی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔

حافظ محمد سعید نے کہاکہ زلزلہ متاثرہ علاقوں میں جماعةالدعوة کے رضاکار کندھوں پر سامان اٹھا کر کئی کئی کلومیٹر پیدل پہاڑی سفر کر کے دور دراز علاقوں میں پہنچ رہے ہیں اور متاثرین میں امدادی اشیاء کی تقسیم کے علاوہ ہمارے میڈیکل مشن کے ڈاکٹرز میڈیکل کیمپنگ کر کے انہیں طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ زلزلہ سے شانگلہ، چترال باجوڑ، مالاکنڈ وغیرہ میں زیادہ نقصانات ہوئے ہیں۔

زلزلہ کے فوری بعد فلاح انسانیت فائونڈیشن کے رضاکاروں نے متاثرین کو ملبے تلے سے نکال کر ہسپتالوں تک پہنچانے اور پکے پکائے کھانے کی تقسیم کا آغاز کر دیا تھا۔زلزلہ متاثرین کے معمولات زندگی بحال ہونے تک امدادی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ زلزلہ متاثرہ علاقوںمیں ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔ متاثرین کیلئے لوہے کی جستی چادروں کے ساتھ ساتھ گرم کپڑوں، بستر، کمبل، ادویات ، خشک راشن اور دیگر اشیاء کی اشد ضرورت ہے۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرئوف جو خود زلزلہ متاثرہ علاقوں میںریلیف و ریسیکیو کے کاموں کی نگرانی کر رہے ہیں کہتے ہیںکہ شانگلہ،باجوڑ،دیر ،چترال میںمیں گائوں کے گائوںتباہ ہو گئے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اکتوبر میں برفباری شروع ہوگئی ہے۔

لواری میں چار فٹ تک برف جم چکی ہے ۔ زلزلہ کے بعد اب سردی کی وجہ سے بھی اموات کا اندیشہ ہے۔ متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو ابھی تک خیمے نہیں مل سکے ہیں۔پوری قوم کو چاہیے کہ وہ متاثرین کی دل کھول کر مدد کرے تاکہ ان کیلئے گھروں کی تعمیر اور دیگر امدادی سرگرمیوں میں سرگرمیوں میں تیزی لائی جا سکے۔ اگر متاثرین کو فوری طور پر موسم کی شدت سے نہ بچایا گیا تو ایک اور انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ اب تک متاثرین تک بنیادی ضروریات کا نہ پہنچنا لمحہ فکریہ ہے۔

Mehr Basharat Siddiqi

Mehr Basharat Siddiqi

تحریر: مہر بشارت صدیقی