تحریر: محمد قاسم حمدان 2002 ء میں طیب اردگان کی اے کے یاآق پارٹی نے جمہوریہ ترکی میں 41 فیصد کی شرح سے 363 نشستیں حاصل کرکے تہلکہ مچا دیا تھا۔ ایک سیکولر ملک میں کسی اسلامی جماعت کا اس قدر بھاری اکثریت سے منتخب ہونا واقعی ایک انقلاب تھا۔ طیب اردگان نے اسلام کے نام پر کبھی ووٹ حاصل نہیں کیا مگراسلام سے ان کی محبت کی جھلک ان کے کرداراورعزم وعمل سے جھلکتی نظرآتی ہے۔ 1999ء میں انہیں 4 ماہ محض اس وجہ سے پابندِ سلاسل رکھا گیا تھا کہ انھوں نے مجمع کے سامنے ایک ایسی نظم پڑھی تھی جو مساجد کی عظمت پر مبنی تھی۔
اے کے پارٹی نے 2002ء میں اقتدار سنبھالا تو اس وقت ترکی کی معیشت تباہی کے دہانے پر تھی اور مہنگائی کی اوسط شرح 47.2 فیصد تھی۔ 1 ڈالر کی قیمت تقریباً 16 لاکھ ترک لیرا کے برابر تھی، اس کے بعد رفتہ رفتہ یہ لڑکھڑاتی معیشت مستحکم ہوتی چلی گئی اور حالات بہتری کی جانب بڑھتے رہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ترکی میں مہنگائی کی شرح 7.5 فیصد پر آچکی ہے، ڈالر کی قیمت 3 ترک لیرا سے بھی کم ہے اور ترکی ایک مضبوط معیشت بن چکا ہے۔اس کی بڑی وجہ مذہبی شدت نہیں بلکہ اعتدال اورترقی کا جذبہ ہے ۔سیکولررجحان رکھنے والے اس لیے ان کے گرویدہ ہیں کہ انہوں نے ترکی کومرد بیمارسے مردکارِزار بنادیا۔اسرائیل کے مؤقرجریدے”اسرائیل ٹوڈے”میں بوعزبسموٹ کامضمون”ترکی کھول دیاہے”کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس نے لکھا کہ میں نے غازی پارک کے مسئلے پرسراپااحتجاج نوجوانوں سے پوچھاکہ تم ووٹ کس کو دوگے تو100نوجوانوں کاجواب تھا طیب اردگان کو۔
ترک عوام نے یکم نومبرکوہونے والے انتخابات میں اپنے فیصلہ کن کردار سے جسٹس اینڈڈویلپمنٹ پارٹی(اے کے پی،آق)کو تاریخی فتح سے ہمکنار کرادیاجس پرنہ صرف ترک اپوزیشن بلکہ دنیابھر میں طیب اردگان پرتنقید کے تیر برسانے والے انگشت بدنداں رہ گئے۔ ترکی اور بیرون جوسروے کیے جارہے تھے،ان میں جسٹس اینڈڈویلپمنٹ پارٹی(آق) کو41فیصد اورحد45فیصد ووٹوں کے ساتھ کولیشن کی صورت میں اپوزیشن کے سامنے گھٹنے ٹیکتے دکھایاگیالیکن تمام جائزوں اورسروے رپورٹس کے برعکس آق نے سب کو عاق کردیا۔ اے کے یاآق پارٹی جو7جون کے انتخابات میں بمشکل 41فیصد ووٹ کے ساتھ 258نشستیں لے پائی تھی۔یوں سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کرسکی تھی۔اس دفعہ49.5فیصدووٹ لے کر317 نشستوں پربراجمان ہوگئی ہے۔ نیشلسٹ موومنٹ پارٹی(MHP) کواس الیکشن میں سب سے بڑا دھچکہ لگاہے۔
Instability
MHP اپنے ایک تہائی ووٹوں سے محروم ہوئی ہے۔ جون کے انتخابات میں اسے 18 فیصد سے اوپر ووٹ ملے تھے اور اس کے حصے میں 80 نشستیں آئی تھیں لیکن اس دفعہ اسے صرف 40 نشستیں ملی ہیں۔اس کی وجہ اس کے سربراہ دولت باہجے لی کا مخلوط حکومت کی تشکیل میں تعاون کی بجائے اپنے دروازے بند کرلینا تھا۔ اس پر انہیں نہ صرف مسٹرنیگٹو کا خطاب ملا بلکہ ترکی میں عدم استحکام کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ ترک عوام نے اپنے ملک کوخطرات سے بچانے کے لیے اس جماعت سے مایوس ہوکر آق پارٹی کے پلڑے میں اپناووٹ رکھ کراسے سبق سکھادیا۔
کردڈیموکریٹک کوبھی جون کی نسبت ڈھائی فیصدووٹ کم ملے۔ اصل اپوزیشن پارٹی ری پبلکن پیپلزپارٹی جومصطفی کمال پاشا کے سیکولر نظریات کی محافظ ہے۔اس الیکشن میں بھی یہ کوئی بڑابریک تھرو کرنے میں ناکام رہی ۔سات جون کے انتخابات کی25فیصد کی حداس سے عبور نہ ہوسکی اور اس کے حوصلے ریت کی دیوار کی طرح ٹوٹ گئے۔ اس سے واضح ہوتاہے کہ ترکی میں اب مصطفی کمال کے لادینی نظریات کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ترک عوام نے اس جماعت کو اس لیے بھی سزادی ہے کہ اس نے جون کے انتخابات میں اپنے تین فیصد ووٹ کردوں کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو ڈلوائے تھے ۔تاکہ وہ دس فیصد کی حد کو عبور کرلے اوریوں آق پارٹی کی نشستوں میں کمی ہوجائے۔
ترکی کی اپوزیشن جماعتوں نے ان انتخابات میں ہرصورت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے بڑے جتن کیے۔ ترک عوام کو اپنے دام ہمرنگ زمیں میں پھنسانے کے لیے پاکستان کے سیاسی بازیگروں کی طرح بڑے بڑے وعدے کیے۔ ری پبلکن پارٹی کے چیئرمین کمال قلیچدار اولونے کہا کہ وہ حکومت میں آکر غریب خاندان کو 600 ٹرکش لبرے دینے کے علاوہ تین سولیرے کرایہ اور بل ادا کرنے کے لیے دیں گے۔کم سے کم تنخواہ 1500 لیرے ہوگی۔ عیدین پردواضافی تنخواہیں ملیں گی۔
Promise
عمر رسیدہ افراد کو ہرتین ماہ بعد 900 لیرے کی امداد دی جائے گی اور کسانوں کو ایک لیٹرڈیزل ایک لیرے میں ملے گا۔ایسے ہی وعدے ترکی کی واحد خاتون وزیراعظم نانسو چیلر نے بھی کیے کہ اگروہ وزیراعظم بن گئی توہرٹرکش کودوچابیاں دے گی ۔ایک چابی گھرکی اوردوسری نئی گاڑی کی۔سلمان ڈیمرل جوترکی کے سات مرتبہ وزیراعظم اور ایک بار صدر بنے۔ انہوں نے اپنی انتخابی سرگرمیوں میں بارباراعلان کیاکہ مخالف جماعتوں کے رہنما جوکچھ آپ کودیں گے ،میں اس سے پانچ گنازیادہ دوں گا۔وزیراعظم بننے پرجب ان کو ان کے وعدے یاددلائے گئے تووہ جواب میں اتناہی کہتے کہ کل کل تھااورآج آج ہے۔ دوسرے لفظوں میں وعدے کو ن سے قرآن حدیث ہوتے ہیں۔
طیب اردگان نے وعدے نہیں کیے بلکہ کہاکہ ہمارا ماضی ہی ہمارے مستقبل کی عکاسی کرتاہے۔ طیب اردگان کے دورمیں ہونے والی ترقی نے ترکی کو دنیا کی17ویں بڑی معاشی طاقت بنادیاہے۔ اس کی ایک واضح مثال جی20کااناطولیہ میں ہونے والااجلاس ہے۔اپوزیشن جماعتوں کی پشت پرمغربی میڈیا بھی کھڑاتھا جوطیب اردگان کی جماعت کو کسی صورت حکومت میں نہیں دیکھناچاہتاتھا۔ انڈیپینڈنٹ ،اکانومسٹ اورسی این این نے اردگان کے خلاف محاذ کھول رکھاتھا۔ اکانومسٹ نے جون کے انتخابات کی مہم میں اپنے شمارے کے ٹائٹل پررجب طیب اردگان کی پورے صفحے کی تصویرلگائی ہے۔ عثمانی خلیفہ کالباس پہنے مسندپربراجمان طیب اردگان پرطنز کرتے ہوئے یہ سرخی جمائی کہ ڈیموکریٹ یاسلطان؟Democrat or Sultan?۔
اکانومسٹ نے ترک عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے تمام آداب اورصحافتی تقاضوں کوبالائے طاق رکھتے ہوئے واشگاف الفاظ میں لکھا کہ وہ مصطفی کمال کے سیکولرنظریات کی محافظ پیپلزڈیموکریٹ کوووٹ دیں ۔تاکہ جسٹس پارٹی کولگام دی جاسکے۔ ترکی کے دوغان میڈیاگروپ کے اخبارات اورٹی وی چینل کنال ڈی ٹی وی نے ترک عوام کوجسٹس اینڈڈیویلپمنٹ (آق) کے تئیں گمراہ کرنے کابیڑا اٹھایا۔اسی طرح گولن میڈیا گروپ نے بھی اپنی پوری طاقت رجب طیب کو محور شرثابت کرنے پرلگادی۔
جسٹس اینڈڈیویلپمنٹ میں پھوٹ ڈالنے کی ناکام کوشش بھی کی گئی۔7جون کے انتخابات میں جب”آق” پارٹی حکومت سازی میں ناکام رہی تومغربی میڈیا اور ترکی کے لادین عناصرنے اردگان کی پالیسیوں پرتنقید کرنا اورجشن منانا شروع کردیا۔ مخالفین یہ سمجھتے تھے کہ اسلام پسندوں کے زوال کا آغازہوگیاہے۔ مگرترکی کے عوام نے یکم نومبرکے انتخابات میں ثابت کردیا کہ جوکچھ7جون کوہوا’وہ محض ان کی سستی تھی۔ اس باروہ بھی گھروں سے نکلے جوگزشتہ انتخابات میں کسی بناپر ووٹ نہیں ڈال سکے تھے۔
Corruption
مغربی میڈیا کے علاوہ پاکستان میں ایسے دانشور اور قلمکار جو پاکستان میں بھی مصطفی کمال کے شیطانی نظریات کو عروج پاتا دیکھنے کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ ترکی میں کمال ازم کو شکست پر افسردہ اورسیخ پاہیں۔ ہاتھ نہ پہنچے تو تھوکوڑی جیسی صورتحال میں طیب اردگان کو الزام دیاجارہاہے کہ وہ مطلق العنان حکمران بننے کی تگ ودو میں ہیں۔ان کے دور میں کرپشن کاحجم اربوں ڈالر تک جاپہنچااور وہ 1150 کمروں کے محل میں منتقل ہو چکے ہیں جس پر 615 ملین ڈالر لاگت آئی ہے۔ ایسے اعتراضات کے ذریعے ان کامقصد پاکستان کے عوام کو گمراہ کرکے ان تعلقات میں دراڑیں پیداکرناہے جو اس وقت ترکی اور پاکستان میں قائم ہیں۔ دنیاجانتی ہے کہ ڈکٹیٹرکبھی آزادانہ اورمنصفانہ انتخابات نہیں کراتے۔
ترکی میں ہونے والی انتخابات کوکسی بھی عالمی معیارپرپرکھنے سے شفاف اور منصفانہ ثابت ہوتے ہیں۔طیب اردگان نے باربارکہاکہ ہم ہرچاربرس کے بعدعوام کی عدالت میں جاتے ہیں۔اگراپوزیشن سمجھتی ہے کہ ہماری پالیسیاں ٹھیک نہیں توآئندہ انتخابات میں عوام سے فیصلہ کروالے ۔یہی بات اپوزیشن کومایوس کر دیتی ہے کیونکہ عوام نے ہرالیکشن میں اردگان کوپہلے سے زیادہ اعتماد دیاہے۔ ترکی میں صدارتی محل کامقصدکسی شہنشاہیت کاروپ دھارنا نہیں تھاجہاں شاہانہ انداز میں دادعیش دیاجاتابلکہ ترکی میں ترقی کے نئے دور کے آغاز کے لیے حکومت اور وزارتوں سے متعلق تمام دفاتر،محکمہ جاتی آفسز کو ایک احاطہ میں جمع کرناتھا۔تاکہ کام کرنے اورفائلوں کی رفتار میں تیزی آئے۔ایک ہزارکمرے پرمشتمل یہ محل صدارتی دفتر ہے نہ کہ اردگان کا نجی عیش کدہ۔ امریکہ کاوائٹ ہاؤس اگرتعیش کی دلیل نہیں تو ترکی کاصدارتی محل اردگان کوعیشن پرست کیسے ثابت کردے گا۔
Tayyip Erdogan
طیب اردگان کردوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے بھرپورکوشش کررہے ہیں۔1925ء سے لے کر 2002ء تک کردوں کو ترکی میں بہت سے مظالم کاسامناتھا۔ ترکی میں کردزبان بولنے پرجیل میں پھینک دیاجاتاتھا۔ان سے غلاموں جیسابرتاؤ کیاجاتالیکن طیب اردگان نے کردوں کے مسئلے کواولیت دی۔ان پرعائدتمام پابندیاں ختم کیں اور ان سے معاہدات کیے۔ انہی کوششوں کانتیجہ ہے کہ کردڈیموکریٹک پارٹی نے انتخابی عمل میں حصہ لینا شروع کیا۔ امیدہے جسٹس پارٹی پہلے سے بھی زیادہ اعتماد،یقین اورعمدہ منصوبہ بندی سے ترکی کی قوت کو بڑھانے کے لیے کام کرے گی۔