آہ ! بیچاری اُردو

Khawaja Jawwad

Khawaja Jawwad

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
سابق چیف جسٹس آف پاکستان جوادایس خواجہ ایسی دبنگ شخصیت کے مالک تھے کہ ہرکوئی لرزہ براندام۔ نفاذِ اُردو کیس اُن کی عدالت میںتھااور حکومتی ایوانوں میں ”تھر تھلی”مچی ہوئی پھر سبھی ”بزرجمہر” سر جوڑبیٹھے اورطے کیا کہ خواجہ صاحب سے جان چھڑانے کابس ایک ہی طریقہ کہ حکومت تین ماہ کے اندر اردو زبان کے مکمل نفاذ کاوعدہ کرلے ، اسی دوران خواجہ صاحب ریٹائرہو کرگھر کے ہورہیںگے اور پھر تو کون ،میں کون۔

جواد ایس خواجہ صاحب نے اسی حکومتی جواب کوبنیاد بناکر فیصلہ صادرفرما دیااورپھر ریٹائرہو گئے ۔نفاذِ اُردوکے چاہنے والوںنے بغلیںبجائیں کہ اب اردوکا نفاذ”ہووے ای ہووے” لیکن ہم نے تب بھی لکھا کہ ایسا ہوتا نظر نہ یں آتا کیونکہ ہمارے نزدیک صرف محترم آصف زرداری ہی نہیں،کسی بھی حکمران کے ہاں وعدے قرآن وحدیث نہیں ہوتے ۔ جب نفاذاردو کے لیے حکومتی حکم نامہ جاری ہواتب بھی ہم نے کہا

تیرے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مَر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

Urdu language

Urdu language

انتہائی محترم جسٹس جواد ایس خواجہ کاحکم نامہ جاری ہوا تو نفاذ اردو کی عاشقِ صادق محترمہ فاطمہ قمر کا دِل خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔ ان کے دل میں پھوٹنے والے لڈوؤں کی چاشنی ہمیں اپنی زبان پر بھی محسوس ہونے لگی لیکن ہمیں یقین تب بھی تھا کہ ایسا ہوتا ممکن نظر نہ یں آتا کیونکہ ہماری بیورو کریسی کے ”لاٹ صاحبان” کو اردو زبان سے اگرنفرت نہیںتو شدید چِڑ ضرورہے ۔فاطمہ قمرکہ اُمنگیں تواب بھی جواں ہیں اوروہ ”قومی زبان تحریک” کے زیرِ اہتمام بھرپور کاوشوںمیں مصروف لیکن تاحال ”کَکھ” نہیں ہوا ،نہ ہونے کی اُمید کہ تین ماہ کی مدت گزرے بھی تین ماہ ہوچکے۔

اب اُن کی ضِدہے کہ محترم وزیرِاعظم صاحب سے براہِ راست درخواست کی جائے کہ وہ اُردو زبان کی حالتِ زار پر رحم فرمائیں لیکن اس ”بھولی بادشاہ” کو کون سمجھائے کہ وزیرِاعظم صاحب نے تو اکتوبر 2015ء میں بھی دورہ ٔامریکہ کے موقع پر جیب سے انگریزی میں لکھی ہوئی ”بُوٹی” نکال کر پڑھی تھی اِس لیے اُن سے کوئی اُمید رکھنا عبث اورکارِ بیکار۔ پھر بھی ایک موہوم اُمیدکے سہارے ہم وزیرِاعظم صاحب کی خدمت میں دست بستہ عرض کرتے ہیںکہ قوم کواُس کی ”شناخت” لوٹا دیجئے تاکہ قوم یہ کہہ سکے کہاُردوکو قومی زبان کادرجہ حضرت قائدِاعظم نے دیالیکن اُس پرعمل درآمد 68 سال بعد میاں نوازشریف صاحب نے کروایا ،بالکل اُسی طرح جس طرح ایٹم بم کی بنیاد بھٹومرحوم نے رکھی لیکن ”ایٹمی دھماکوں” کی سعادت میاں صاحب کے حصے میںآئی۔

PM Nawaz Sharif

PM Nawaz Sharif

آج نسلِ نوکو ایٹم بم کا بانی تو شاید یاد نہ ہو لیکن یہ سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان کوعالمِ اسلام کی پہلی اور اقوامِ عالم کی چھٹی ایٹمی قوت بنانے والے محترم میاں نواز شریف ہیں۔ اگر میاں صاحب ”قومی زبان” کا نفاذ کرگئے تو پھر یقیناََ قوم ”یومِ تکبیر” کی طرح ”یومِ نفاذاُردو” بھی منایا کرے گی اور وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ اسی کارنامے کے سہارے اُن کانام تاریخِ پاکستان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ وتابندہ ہوجائے گا۔ ویسے بھی بانیٔ پاکستان حضرت قائدِاعظم نے اُردوکو قومی زبان کادرجہ دیاتھااِس لیے اُن کے پیرو کاروں کا فرضِ اوّلین ہے کہ وہ نفاذِ اُردوکے ذریعے یہ ثابت کردیں کہ حضرتِ قائدکا احترام اوراُن سے محبت آج بھی صرف قوم ہی نہیںبلکہ حکمرانوں کے دِل میںجاگزیں ہے۔

ہم نے تووزیرِاعظم صاحب کے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میںخطاب کے موقعے پربھی اپنے کالم میںاستدعا کی تھی کہ وزیرِاعظم صاحب کو دیگرسَربراہانِ مملکت کی طرح اپنی قومی زبان میںخطاب کرناچاہیے لیکن وزیرِاعظم صاحب نے انگریزی کاہی سہارالیا جس کابعد ازاںوزیرِ اطلاعات پرویز رشید صاحب نے یہ جوازپیش کیاکہ اقوامِ متحدہ میںصرف چھ زبانوںمیںہی خطاب کیاجا سکتاہے جن میں”اُردوزبان” شامل نہیں۔ پرویزرشید صاحب کے اِس جواز پرتو ہم چُپ ہورہے لیکن اُن سے یہ تو پوچھاجا سکتاہے کہ چلیںجنرل اسمبلی میںانگریزی میںخطاب تومجبوری کے تحت کیاگیا لیکن کیااکتوبر 2015ء میںکیے جانے والے دورۂ امریکہ کے موقع پربھی ”غلامانہ ذہنیت” کی عکاسی ضروری تھی؟۔

Obama

Obama

کیایہ امریکی حکومت کاحکم تھاکہ سوائے انگریزی زبان کے کسی دوسری زبان میں گفتگو نہ یں ہوگی؟۔ اگر نہیں تو پھر کیا یہ بہترنہ ہوتاکہ وزیرِاعظم صاحب امریکی صدربارک اوباما سے ملاقات کے دوران انگریزی میں لکھی گئی ”پرچیوں” کوپڑھنے کی بجائے باوقار اندازمیں اپنی قومی زبان میںگفتگو کرتے؟۔اُدھرہمارا الیکٹرانک میڈیاہے کہ ”ملکی توہین”کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیںجانے دیتا۔ نوازشریف ،بارک اوباماملاقات کے دوران ہمارے نیوز چینلز ”چَسکے” لے لے کرکبھی میاںصاحب کے ہاتھ میں پکڑی ”پرچیاں” دکھارہے تھے توکبھی پرچیوںکوواسکٹ کی اندرونی جیب میں رکھتے ہوئے اورہم مارے شرم کے پانی پانی۔

پچھلے دنوں جب پرویز رشید صاحب قومی زبان تحریک کے زیرِ انتظام سیمینارسے خطاب کے دَوران نفاذِ اُردوکے عشق میں”گوڈے گوڈے” دھنسے نظرآ رہے تھے، تب بھی ہم یہی سوچ رہے تھے کہ کیاقول وفعل میںاتناتضاد بھی ہوسکتاہے؟۔ اُنہوںنے یہ کہہ کرنفاذِ اُردو تحریک کے کار پردازان کی اشک شوئی کرنے کی کوشش کی کہ حکومت نے قومی سطح پرنفاذِ اُردو کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے ۔ تب ہمارے دِل نے کہاکہ اے قومی زبان تحریک کے کارپردازو ! ”اٹھالو پاندان اپنا” کہ تمہارایہاں ”کَکھ” نہیںہونے والاکیوںکہ جہاںحکومتی کمیٹیاںتشکیل دے دی جائیںوہاں کبھی بیل منڈھے نہیںچڑھتی۔

اب توجسٹس جوادایس خواجہ کاسہارا بھی نہیںاور جواُن کی جگہ عدل کی سب سے بڑی مسندپہ جلوہ فگن ہیںوہ توخودانگریزی زبان کے شیدائی کہ اُنہوںنے توخوداپنے ہی ملک میںاپنی ہی سینٹ سے اُردوکی بجائے انگریزی میںخطاب کرناپسند فرمایا۔ ہم تویہ سوچ کے بیٹھے تھے کہ اگروزیرِاعظم صاحب نے عدالتی حکم پرعمل درآمد نہ کیاتو اُنہیںبھی سابق وزیرِاعظم یوسف رضاگیلانی کی طرح توہینِ عدالت کاسامنا کرناپڑے گالیکن یہاںتو معاملہ ہی اُلٹ ہوگیا۔ اگرچیف جسٹس آف پاکستان محترم انورظہیرجمالی سینٹ سے انگریزی میں خطاب فرماسکتے ہیںتوپھر ہماری اعلیٰ عدلیہ کسی دوسرے شخص کوایسا کرنے سے کیسے روک سکتی ہے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر