مردوں کی دنیا میں عورتوں کا استحصال

Women Rights in Islam

Women Rights in Islam

تحریر: حاجی زاہد حسین خان
تخلیق آدم کے ساتھ ہی نسل آدم کی افزائش اور مرد کی راحت و تسکین کے لئے عورت کا وجود بھی تخلیق کر دیا گیا مگر بدقسمتی سے زمین پر ڈیرہ جماتے ہی ایک بھائی نے عورت کا استحصال کرتے ہوئے دوسرے بھائی کا خون کر دیا زر زمین کے ساتھ ساتھ زن کے لئے خون کا یہ سلسلہ چل نکلا حتی کہ قوم لوط نے بھی لواطت کو رواج عام دیکر صنف نازک کا خوب استحصال کیا پھر رومیوں کے ادوار میں امراء اور رئوسا ء نے اپنے اپنے محلات اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں لونڈیوں اور داشتائوں سے بھر دیئے عورتوں کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک روا رکھا گیا اس کے کوئی حقوق نہ رہے حتی کہ بولنے اور محلات سے باہر نکلنے کی آزادی بھی چھین لی گئی زمانہ گردش میں رہا گزرتا رہا جاہلانہ اور ظلمت کے اس دور میں بیٹیوں کے جنم لیتے ہی مار دیا جاتا۔

نام نہاد غیرت کے لئے زندہ دفن کر دیا جاتا۔ خریدا جاتا اور فروخت کردیا جاتا۔ اور پھر ہمارے آقا دو جہاں ۖ مبعوث ہوئے اسلام آیا شریعت محمدی آئی عورتوں کو مقام ملا انکا حق ملا علم و تدبر و تقویٰ اور پرہیز گاری میں مرتبہ اور منزلت میں مرد وزن کی کوئی تفریق نہ رہی۔ عورت کو ماں کے روپ میں اس قدر اعلیٰ مقام ملا کے اس کے قدموں میں جنت رکھ دی گئی۔

بہن کے روپ اور بیٹی کے روپ میں اسے عزت وتکریم شفقت ملی کہ بیٹیاں اپنے باپوں اور بہنیں اپنے بھائیوں پر فخر کرنے لگیں۔ بیویوں سے اسقدر محبت انسیت کا رواج عام ہوا کہ وہ اپنے باپوں بھائیوں کی محبت کو بھول کر اپنے اپنے مجازی خدائوں کی محبت کا دم بھرنے لگیں۔ اور اپنے اپنے گھروں کو جنت بنانے لگیں۔ بیٹیاں اگر فاطمہ سے فاطمہ الزہرا ۔ بننے لگیں۔ تو بیویاں خدیجہ سے خدیجہ الکبرٰی بننے لگیں۔

Women

Women

باپ بیٹے اور بھائی اگر باہر کی دنیا کے مجاہد غازی اور شہسوار بنے تو مائیں بیٹیاں اور بیویاں اپنی اپنی چاردیواری کی وزیر و مشیر بنیں۔ مرد اگرمعلم مدرس اور امام بنے تو خواتین اپنے گھروں میں اپنی اولاد وں کی معلمات اور استاد بنیں ۔ مردوں کو اگر اپنی اپنی استطاعت کے مطابق چار چار بیویاں رکھنے کی اجازت ملی تو بیوائوں اور مسکین خواتین کو برابر کے حقوق اور سہارے بھی ملے مرد کی جسامت طاقت قوت ارادی سخت جانی کی وجہ سے الرجال القوامون بنایا گیا عورتوں پر برتری دی گئی تو عورتوں کی نازک مزاجی نازک صنف اور فطرت کی بنا پر گھر کی چار دیواری کا حاکم بچوں کی پرورش اور تربیت کا اہم فریضہ عنائیت فرمایا گیا۔ عورتوں کو اپنے اپنے مردوں کی طاقت وقوت اور حاکمیت پر فخر تھا تو مردوں کو بھی اپنی اپنی عورتوں کی گھر داری تقویٰ اور پرہیز گاری اور دیانتداری پر بھروسہ تھا۔

یہ سلسلہ مدینے کی اسلامی ریاست اور جہاں جہاں اسلام پہنچا خوب چلا مگر جب خلافتوں کے بعد بادشاہت اور ملوکیت کا دور آیا تو پھر آہستہ آہستہ گھروں اور محلات میں چند بیویوں کے علاوہ کنیزوں باندیوں کی صورت میں درجنوں عورتوں کو مقید کر لیا جانے لگا ۔ اس طرح عورتوں کے استحصال کا سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا۔ حتی کہ عثمانی اور مغلیہ ادوار میں عرب و افریقہ اور سارے ہندوستان میں بھی عورتیں امراء رئوساء اور جاگیرداروں شہزادوں کے گھروں کی لونڈیاں باندیاں اور داشتائیں بننے لگیں۔

ماں بہن بیٹی کی وہ عزت اور تکریم نہ رہی ۔ بارہ دری محلات میں ناچ گانے کا رواج عام ہوا عزتیں لٹنے اور بکنے لگیں۔ بدقسمتی سے عورتیں بھی گھر داری چار دیواری پردہ داری کو خیر باد کہنے لگیں۔ اور ساتھ ساتھ مردوں کی برابری کے شوق نے بھی انہیں شہروں بازاروں درباروں کی طرف راغب کر دیا ادھر یورپی ننگ دھڑنگ معاشرے میں عورت کھلونا بنادی گئی بیوی ایک رہی مگر مردوں نے دفتروں بازاروں میں اپنی تسکین کے لئے داشتائیں رکھلیں گرل فرینڈ رکھ کر انکی عزت و ناموس کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔

Woman Work Offices

Woman Work Offices

بدقسمتی سے مغربی معاشرے کی اندھی تقلید نے آزادی اور برابری کے شوق نے ہمارے مشرقی خصوصا اسلامی معاشرے میں بھی عورت کو بازاروں دفتروں کی زینت بنا دیا گیا چادر و چار دیواری کو خیر باد کر کے مسلمان بچیاں مردوں کے شانہ بشانہ سر بازار لٹتی رہیں۔ تمام اداروں میں حتی کہ تعلیم اداروں میں بھی مخلوط نسل پروان چڑھنے لگی اسلام کی ایک سے زیادہ شادیاں جرم بن کر رہ گئیں۔ بیوائوں اور بڑی عمر کی بچیاں بے سہارا آوارہ پھرنے لگیں۔ اور گھر سے باہر گرل فرینڈ ز اور داشتائیں بننے لگیں۔

اوپر سے کزن برادران کی فوج ظفر موج باہر تو باہر گھروں میں بھی آکر ڈیرے جمانے لگے شرعی پردہ رہا نہ پردہ داری حجاب رہا نہ نقاب اوڑھنیاں رہیں نہ چادریں نت نئے رواجوں نے عورت کو نیم برہنہ کر کے رکھ دیا اور اس میں بھی باپ بھائی اور خاوند وں کی رضا مندی حوصلہ افزائی جاری رہی اللہ کے حکم اور رسول اللہ ۖ کی شریعت کی اس حکم عدولی خلاف ورزی میں مرد برابر کے شریک رہے ہمارے اسلامی معاشرے کی عورت وزیر مشیر حاکم تو بنی مگر نہ ایک اچھی ماں جس کے پائوں تلے جنت تھی جو بہن بیٹی کے روپ میں باپ بھائی کے لئے محبت و شفقت اور جنت کی چابی تھی جو بیوی کے روپ میں تسکین قلب اور گھر کی ملکہ بھی نہ بن سکی۔

آج ہمارے اس معاشرے میں عورت ہر جگہ لٹتی پٹتی ہے ماں بہن اور بیٹی کے روپ میں اس استحصال میں ہم مردوں کی صنف برابر کی شریک ہے۔ آج ہمارے ہاں اسلامی معاشرے کی کہیں بھی جھلک نظر نہیں آتی وہی اسلام سے قبل والا جاہلانہ دور وہی رومیوں مشرکوں کا وہ پر تشدد دور وہی خرید نا بیچنا لٹنا اور زندہ درگور ہونا ۔ عورت کا مقدر وہی مغربی رسم ورواج دیوی دیوتائوں اور کلیسائوں چرچوں اداروں میں بھی استحصال جہاں بھی دیکھیں مردوںہی کی اجارہ داری نت نئے فیشنوں کے نام پر بے پردہ کر کے چادر اور حجاب چھین کر گھروں سے باہر نکال کر رکھ دیا نام نہاد غیرت کے نام پر کبھی ونی اور کبھی مارنا جلانا ۔ اس میں بھی ہم مرد برابر کے شریک ہیں۔ اب خدا کے لئے اپنے گھروں کی عزت و ناموس کو اس طرح موت کے منہ میں نہ دھکیلیں آئو اپنے رب کے حکم اور رسول اللہ ۖ کی سنت و شریعت کے مطابق اپنی بیویوں بہنوں اور بیٹیوں کو پھر سے گھروں کی ملکہ بنائیں انہیں چادر اور چار دیواری کا پابند بنائیں۔

Hijab Women

Hijab Women

حجاب اور نقاب کا پابند بنائیں اس کی عزت و ناموس کی حفاظت کریں اس کا تقدس بحال کریں۔ پھر سے اس کے قدموں میں جنت اور اسکے دامن میں سکون تلاش کریں آئو واپس اسلامی معاشرے کی طرف لوٹ جائیں۔ انہیں خدیجة الکبرٰی اور عائشہ صدیقہ اور فاطمہ الزھرا کا پیروکار بنائیں۔ انہٰں رابعہ بصری اور ام عبدالقادر جیلانی بنائیں۔ ہم مرد اگر چاہیں تو یہ سب کچھ ممکن ہے ۔ اسی میں مردوزن کی بھلائی اور اللہ اور اسکے رسول کی رضا ہے۔ ہماری آنے والی نسلوں کی بقا اور ہمارے معاشروں کی اصلاح بھی ہے۔ اللہ ہمیں ہدایت یافتہ بنائے اور اہماری مدد و نصرت بھی فرمائے آمین۔

تحریر: حاجی زاہد حسین خان پلندری سدہنوتی آزاد کشمیر
hajizahid.palandri@gmail.com