تحریر: ماجد امجد ثمر طالب علم خواہ کسی بھی جماعت میں ہو معاشرے میں انتہائی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ علم حاصل کرنے کی خوبی ہی اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ خاص طور پر آج کے دور میں تو ہر شخص کی ہی یہ خواہش ہے کہ بس کسی بھی طرح وہ پڑھا لکھا نظر آئے ۔ لوگوں پر اس کے تعلیم یافتہ ہونے کا تاثر جائے اور وہ لوگ جو ماضی میں مناسب تعلیم حاصل نہ کرسکے بلاشبہ آج وہ احساسِ کمتری کا شکار ہیں۔ ان میں بڑی شدت سے یہ احساسِ محرومی پایا جاتا ہے کہ کاش وہ بھی پڑھے لکھے ہوتے ،معاشرہ انہیں ایک پڑھے لکھے انسان کی حیثینت سے دیکھتا۔ وہ پڑھائی لکھائی کے معاملے یا کسی نئی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے سلسلے میں دوسروں کے محتاج نہ ہوتے اس طرح کی اور بہت سی باتیں ایک ان پڑھ انسان کے دماغ میں بھٹکتی پھرتی ہیں کیونکہ کوئی بھی شخص خود کو جاہل کہلوانا پسند نہیںکرتا ۔لیکن خود کو تعلیم یافتہ کہلوانے کے لئے تعلیم حاصل کرنا بھی تو اول شرط ہے۔
کیو نکہتعلیم ہی انسان کے علم میں اضافہ کرتی ہے اس کے شعور کو وسیع کرتی ہے اسے تہذیب سکھاتی ہے اور اس کے علاوہ تعلیم ہی کسی بھی قوم کی ترقی میں ایک ریڑھ کی ہڈی کی حیشیت رکھتی ہے۔ اور اچھا تعلیمی نظام انسان کو ہمیشہ کامیابی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ اور اگر ہم آج کی نسل کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریںگے تو مستقبل میں یہ ایک تعلیم یافتہ قوم بن کر ابھرے گی۔دراصل تعلیم ہی ایک ایسا طاقتور ترین ہتھیار ہے کہ جس سے انسان دنیا تک بدل سکتا ہے اور اس ہتھیار کو اٹھانے والا یا استعمال کرنے والا شخص ایک طالب علم ہوتا ہے۔ طالب علموں کا عالمی دن ہر سال 17 نومبر کو دنیا بھر میں منایا جاتاہے۔
Freedom
اس دن کا اہم مقصد طلباء کے کردار اور ان کی اہمیت اور ملک میں معیاری تعلیمی نظام کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشیش کرناہے۔یہ دن پہلی مرتبہ 1941ء میں لندن میں انٹرنیسنل سٹوڈنٹس کونسل کے زیرِ اہتمام منایا گیا۔اس دن کی تاریخ کچھ اس طرح ہے کہ 1939ء میں دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں جب نازی فوجی دستوں نے چیکو سلواکیہ ‘ پر حملہ کیا اور آمریت کا نفاذ کیا تو وہاں کی طلباء تنظیموں نے اپنی آزادی اور جمہوریت کے لئے ایک جنگ لڑی اور اس غاصبانہ قبضے کے خلاف خوب مظاہرے کئے ۔تو تب ناذی فوجیوں نے9 طلباء کو پھانسی دے دی ،وہاں تمام یو نیور سٹیاں مکمل بند کر دیںاور بہت سے طلباء کو حراستی کیمپ میں بھیج دیا۔17 نومبر ان سٹوڈنٹس کو دفنانے کا دن تھا۔ طالب علم چونکہ مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔آنے والے دور میں ملک کی ترقی و خوشحالی ان کے ہی ہاتھ ہوتی ہے۔اس لیے انہیںآج خود کو علمی طاقت سے ایسا تیار کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مستقبل میں بڑے سے بڑے چیلنج کا آسانی سے مقابلہ کر سکیں۔ طالب علم آج بھی اگراپنی اہمیت جاننا چاہتے ہیں تو وہ ان لوگوں سے پوچھیں جو تعلیم سے مکمل محروم رہے اور حتیٰ کہ وہ کسی سکول میں بھی نہ جا سکے۔
اب بات کی جائے تعلیم کے باآسانی حصول کی تو بے شک اعلیٰ معیاری تعلیم کے سلسلے میں طلباء کو یکساں مواقع فراہم کرنا حکومت کی اہم ذمہ داری ہے۔خصوصاً آج کے طالب علموں کو غور و خوض کی ضرورت ہے۔ اپنے اندر ایک عقابی روح پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں خود میں جذبہ ایک عزم پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ عزم کے بغیر وہ کوئی مقصد کوئی منزل حاصل نہیں کرسکتے۔ہم تعلیمی میدان میں ابھی کافی پیچھے ہیں ۔لہذا اب منصوبوں کو ایک عملی شکل دینے کا وقت ہے۔اور عمل کو کامیا بی کا دوسرا نام بھی کہا جاتا ہے۔کیونکہ جب تک ایک انسان قدم ہی نہیں اٹھائے گا تو وہ منزل تک کیسے پہنچ پائے گا۔اور اگر ہمارے طلباء ترقی یافتہ ممالک کے کامیاب لوگوں کی ذندگی کا مطالعہ کریں تو انہیں پتہ چلے گا کہ کامیاب لوگوں کی سب سے بڑی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ عمل کے ساتھ منسلک رہتے ہیں۔وہ غلطیاں بھی کرتے تھے ، ناکام بھی ہوتے تھے لیکن حوصلہ نہیں ہارتے اور نہ ہی اپنا کام ترک کرتے ہیںکیونکہ ایک سو ناکامیوں کے پیچھے ایک ہزار کامیابیاں چھپی ہوتی ہیں۔
اور کسی بھی ملک کی تعلیمی حالت اور وہاں کے طلباء کا کرداراس ملک کے مستقبل کی عکاسی کر رہا ہوتا ہے۔لیکن افسوس کہ ہمارے طالب علموں کی اکثریت تو بس موبائل فون ،انٹرنیٹ،ڈراموں اور فلمی دنیا میںہی مگن ہوکر رہ گئی ہے۔ انہیں یہ تو پتہ ہوتا ہے کہ اب نیا سستا کال پیکج کس کمپنی کا آیا ہے انہیں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ آئندہ نئی فلم کب اور کس ہیرؤین کی آ رہی ہے لیکن انہیں یہ کیوں نہیں معلوم ہوتاکہ ان کا اصل تعلیمی مقصد کیا ہے وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کے اس تعلیمی اخراجات پر کسی کا خون پسینہ لگ رہا ہے۔یہاں مجھے ایک بہت خوبصورت شعر یاد آیاکہ۔”شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے ۔کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا۔’
Muhammad Ali Jinnah
‘ تعلیم کی اہمیت بارے قائداعظم نے ایک جگہ طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”تعلیم آپکا پہلا فریضہ ہے۔اس پر پورا دھیان دیں۔اور اس کے ساتھ آپ دورِ حاضر کی سیاست کا مطالعہ کریں یہ دیکھیں کہ آپ کے گرد و نواح میں کیا ہو رہا ہے ہماری قوم کے لئے تعلیم ذندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔”افسوس در افسوس کہ ہمارے ملک میں تو تعلیم کا شعبہ ایک پروفیشن بن کے رہ گیا ہے۔آج کسی تعلیمی ادارے کے پرنسپل کو ایک بزنس مین بھی کہہ دیں تو کوئی شرم کی بات نہیں۔ اس کے ساتھ ہمارے ملک میں طلباء کی ایک بدقسمتی یہ ہے کہ ایک اچھی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی در بدر کی ٹھوکریں ان کا مقدر بنتی ہیں۔اور بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ نوکریاں نہ ملنے کی وجہ سے اپنی تعلیمی قابلیت سے کم درجہ پر نوکریا ں کررہے ہیں
۔ایف اے پاس کی سیٹ پر ایک ایم اے پاس بیٹھا ہے۔کیوں کہ انہیں ان کی تعلیمی قابلیت کے مطابق روزگار میسر ہی نہیں۔یہ تو الگ رہا بلکہ آج تو ایک ریڑھی لگانے والا شخص جو اچھی کمائی کر لیتا ہے وہ خودکو ایک پڑھے لکھے پر فوقیت یا ترجیح دے رہا ہے۔صرف اس وجہ سے کہ وہ ان پڑھ ہونے کے باوجود ایک پڑھے لکھے کی نسبت دگنا کما لیتا ہے۔اور ایسا ہو بھی کیوں نہ جب حکومت نے ہی فیصلہ کر لیا ہو کہ اس ملک میں گدھا اور گھوڑا ایک برابر کرنے ہیں۔نوکریوں کے وعدے کرنے والے حکمرانوں کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ یہ پاکستانی حکمران ہیں لہذا ان سے کوئی بھلائی کی امید نہیں رکھی جا سکتی ۔حکومتی خزانے کو دودوہاتھوں سے لوٹنے والے ان حکمرانوں کا کڑا احتساب وقت کی اشد ضرورت ہے ۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم کے شعبہ کے ساتھ ساتھ صنعت کاری کے شعبہ میں توجہ دے ان شعبوں میں خوب سر مایہ کاری کرے۔ طالب علموں کی حوصلہ افزائی کے لئے روزگار کے ذیادہ سے ذیادہ مواقع پیدا کرے تاکہ ہر ایک کو کم از کم اس کی تعلیمی قابلیت کے مطابق باعزت طریقے سے روزگار میسر ہوسکے ۔ اگر موجودہ حکومت قائداعظم کا صرف یہ فرمان ہی مدِنظر رکھ لیتی تو وہ یقینا ہر گز ایسا قدم نہ اٹھاتی۔”قومی خدمت اور احساس ِ ذمہ داری کے شعور کی نشونما ہمارا فرض ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کو پورے طور اس قابل بنا دیں کہ وہ اقتصادی ذندگی کے مختلف شعبوں میں اس طرح حصہ لیں جو پاکستان کے لئے باعثِ عزت ہو۔”اب اگر ریاست کی طرف سے ہی طلباء کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے تو شائد انہیں اپنی قدر پہچاننے میں کنفیوژن پیش آسکتی ہے۔