تلہار (امتیاز جونیجو) کیا پاکستان بھر میں کمسن بچوں کو ان کے بنیادی حقوق مل سکیں گے؟ ننہے معصوم بچے جو مستقبل کا معمار کہلاتے ہیںاور خوابوں کی جگنوئوں اور خواہشوں کی تتلیوں کا نام ہی بچپن ہے ہمار ے ہاں ایک وہ قبیلہ ہے جن کے بچے ایک نوالہ لینے سے پہلے نو نخرے دکھاتے ہیں ان کو بہتر تعلیم اور کھیل کی سہولت ملتی ہے پانچ سات سال کی عمر میں وہ کمپیوٹر سے کھیلتے ہیں۔
International Child Rights Day
شال ان کی خوشیاں بڑہتی رہیں لیکن جو دوسرا طبقہ ہے ہم غریب انسانوں کا جن کے بچوں کے ہاتھوں میں مشقت کے چھالے ان کے چہرے دنوں نہیں دھلتے، ریسٹورنٹ تو دور ان کو ایک نوالہ بھی بڑی مشکل سے نصیب ہوتا ہے اب تو( مٹھی میں تقدیر میری دنیا کو ہم نے بس میں کیا )جیسے الفاظ پھیکے نظر آتے ہیںذرا سوچیں کہ کیا ہم نہیں چاہتے کہ امیر کی طرح غریب کے بچوں کو بھی تمام حقوق ملنے چاہئیں۔
International Child Rights Day
14 دسمبر 1954 میں اقوام متحدہ نے سال میں ایک دن بچوں کیلئے منانے کا کہا اور 20 نومبر 1959کو باقائدہ سے منایا جانے لگا عام طور پر دنیا بھر میں اکثر یے سلسلہ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے کہ وہاں کے ہنستے روشن مستقبل کے ستارے بنیادی حقوق سے محروم ہیں جن سے پاکستان بالخصوص سندھ کے دیہی علائقے بچوں کے حقوق کیحوالے سے بلکل خاموش صحرا کی طرح ہیں پرائمری تعلیم کے حوالے سے ہمارا ملک بلکل پیچھے ہے سب سے پہلے والدین پر کچھ حقوق لازم ہوتے ہیں جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اسے رونے کے سوا کچھ بھی نہیں آتا جس کے بعد وہی انسان وہ معاشرے میں پلتے بڑہتے وہ سب کچھ سیکھ جاتا ہے جس کا معاشرے سے تعلق ہوتا ہے والدین پر ہی یے فرض ہوتا ہے۔
International Child Rights Day
کہ وہ اپنے بچے کی اچھی پرورش کریں اور اسے وہ تمام سہولیات دیں جن کی اس بچے کو اس وقت ضرورت ہو چونکہ یہاں سندھ کی ایک بڑی آبادی دیہات میں غربت کی لکیر سے انتہائی کم درجے کی زندگی بسر کرتی ہے جس کی وجہ سے یہاں بھوک و افلاس اور غذا کی کمی کے باعث اکثر بچے مناسب پرورش سے محروم ہوکر رہ جاتے ہیں جبکہ ہمارے معاشرے کی ایک اور ذہنی بیماری یے بھی بن چکی ہے کہ یہاںلڑکوں کی نسبت لڑکیوں کو انتہائی کم اہمیت کی نگاہ سے تسلیم کیا جاتا ہے۔
International Child Rights Day
پاکستان میں ملکی و غیر ملکی این جی اور کی بھرمار کے با وجود لوگوں میں یے جہالت ختم نہ ہو سکی ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہی ہوگا کہ لڑکی کی پیدائش کسی کا قصور نہیں اور نہ ہی لڑکے کی پیدائش کسی کا کمال والدین کیلئے دونوں برابر کے حقدار ہیں والدین کو چاہئے کہ تمام بچوں کو برابری کے حقوق دیں ان کی تعلیم، صحت، کھیل کود و دیگر سرگرمیوں کا خاص خیال رکھیںہماری کل آبادی کابڑا حصہ پانچ سے 14 سال کی عمر کے بچوں پر مشتمل ہے ہمارے ہاں چائلڈ لیبر کے حوالے بھی کوئی تنظیم عملی میدان تک نہیں دکھائی دیتی شہروں کی نسبت دیہات کے اکثر والدین اپنے بچوں کو تعلیم کے بجائے مشقت کروانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
International Child Rights Day
کیونکہ آج بھی پڑھے لکھے نوجوان روزگار کیلئے در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں کسی نے سچ لکھا ہے کہ غربت چائلڈ لیبر سے نہیں بچوں سے جبری مشقت ہی غربت کی وجہ ہے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار ملے گا تو ہی ہماری آئندہ نسلوں کیلئے مثال بنے گی والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں گے والدین کی دی ہوئی تعلیم و تربیت اداب و اخلاق بچے کے مستقبل کیلئے انتہائی اہم معنی رکھتے ہیں۔
International Child Rights Day
اگر ان کی پرورش میں کوئی کمی پیشی رہ گئی تو بڑے ہوکر ان ہی بچوں کیلئے مشکلات کا باعث ہو سکتی ہے دنیا کے دیگر ممالک کی طرف دیکھا جائے تو وہاں بچوں کیلئے باقائدہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے لیکن ہم نے اپنی نسل کو جس قدر نظر انداز کیا ہے اس کے باعث آج ہم اپنے آپ سے بھی جوابدہ ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ اس عالمی دن کو بھی اہمیت دے کر غریب طبقے کا احساس کریں تاکہ دیگر بچوں کی طرح وہ بھی اپنا مستقبل روشن کرنے میں آگے جا سکیں وہ بھی اپنی مرضی کی تعلیم ، صحت، کپڑے ، کھانا، کھیل کود و دیگر سہولیات سے آراستہ ہو سکیں ۔مختلف کالم نگاروں کے مضمون سے اقتباس